عمران حکومت کے بھی 5 سال پورے ہوئے تو 2023ء میں جوان قیادت ابھرے گی جس کے دو نمایاں نام بلاول اور مریم سامنے آ چکے ہیں۔ بلاول کی افطار میں دونوں پہلو بہ پہلو دکھائی دئیے۔ حالات حاضرہ کے آزمائشی دور میں دونوں ایک پیج پر ہیں دونوں جماعتیں ’’پ‘‘ اور ’’ن‘‘ اپنی اپنی شامتِ اعمال بھگت رہی ہیں۔ ملبہ اعمال پر نہیں نیب پر ہے۔ آصف زرداری نے اعلان کیا ہے دوبارہ الیکشن کے لیے احتجاجی تحریک کی قیادت بلاول اور مریم کریں گے۔ چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس (انٹرویو) متنازعہ بن گئی۔ نیب پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بھی نیب کارکردگی کے ناقد ہیں ۔ محترم جسٹس کے نزدیک ’’بس بہت ہو گیا‘‘ جو اب میں شاہد خاقان عباسی نے پریس کانفرنس میں نیب کو للکارا کہ چیئرمین صاحب ملک کے ٹھیکیدار نہ بنیں ۔ زرداری تو ایک قدم آگے بڑھے اورکہا چیئرمین نیب کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ شاہد خاقان کی نگاہ میں معاشی تباہی میں نیب کا بڑا حصہ ہے۔ اس نے بیورو کریسی کو مفلوج کر دیا۔ ڈالر اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ 154 روپے کا ہو گیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری آدھی رہ گئی ہے۔ 10 ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 51.7 فیصد کمی ہوئی۔ سونا کی قیمت 72 ہزار 100 روپے تولہ ہو گئی ہے۔ غریب دلہن کی کلائی میں تو ایک چوڑی بھی نہیں ڈل سکتی۔ 56 کمپنیوں کے سکینڈل کے بعد پنجاب حکومت نے 30 کمپنیاں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔اتنے ہی محکمے اور اتنی ہی کمپنیاں ایسی گورننس تو کہیں نظر نہیں آتی۔ دنیا بھر میں ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ چل رہی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین جیسے مشیروں کے مشورے بھی تو منظرعام پر لائے جائیں ۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بادشاہوں کے نو رتن ان کے کانوں میں کیا ڈالتے ہیں جس سے ان کی آنکھوںکے آگے دھندلا پن آ جاتا ہے۔ کیا مشیر تصاویر اور چند لائنوں کی خبر چھپوانے کو ہی کارکردگی کاتمغہ سمجھتے ہیں۔ آج تک بیت المال کمیٹیاں نہیں بن سکیں۔ لاکھوں مستحقین مالی امداد سے محروم ہیں۔ پورے ملک میں امتحانی پرچے آئوٹ ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس سے کوئی پاکستانی اختلاف نہیں کرے گا کہ نیب کے رویے سے لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہیں، اس کا کام صرف پکڑ دھکڑ نہیں الزام ثابت کرنا بھی ہے جو کیس بنتا ہی نہیں پتہ نہیں کیسے بنا لیتے ہیں۔ اگر نواز شریف اورزرداری کو اپنے ادوار میں نیب قوانین میں ترمیم کرنے کی فرصت نہ ملی تو وزیراعظم عمران خان چیف جسٹس کے ریمارکس کو بنیاد بنا کر اپنے عہد میں نیب قوانین کو منصفانہ بنا ڈالیں۔ قرآن کے الفاظ ہیں کہ کسی کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ مودی کی جیت کے بعد سب سے اہم سوال پاک بھارت تعلقات کے مستقبل کا ہے۔ بی جے پی کی انتہا پسندانہ حکومت اپنی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے گی یا کسی حد تک اعتدال کا رویہ اپنائے گی۔ فی الحال تو جیت کی خوشی میں مودی علاقائی امن اور ترقی کے لیے عمران خان سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ نظر آتا ہے کہ مودی کی جیت خطے کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو گی۔ عمران حکومت موقف پر ڈٹی رہے اورمذاکرات کے لیے منتیں نہ کرے۔ پاکستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کی موجودگی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ بھارت کی پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کا ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری ہے۔ شاہ محمود قریشی، سشما سوراج کی ملاقات کو ’’سرِ راہے‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم دشمنی کا دوسرا نام ہندو قوم پرستی ہے۔
آئندہ مالی سال میں پاکستانیوں کے سروں پر 775 ارب روپوں کے نئے ٹیکس منڈلائیں گے۔ عوام سے زیادہ خزانے کا پیٹ بھرنا ضروری ہے۔ 11 جون، پوٹلی میں بند نئی چیزیں سامنے لائے گا۔ ترقی کے لیے 1.837 کھرب روپے مختص کئے جائیں گے۔ گروتھ ٹارگٹ 4 فیصد رکھا جا رہا ہے۔ 1500 ڈالر فی کس آمدنی کا خیالی پلائو پک رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کی تجوری میں صرف 8.06 ارب ڈالر پڑے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک مزید دو ماہ مشکل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب لوگ ملازمتوں کے لیے پاکستان آئیں گے۔ فی الحال تو یہ بات خواب ہی دکھائی دیتی ہے۔ 30 فیصد بنک اکائونٹس ان ڈیکلیئرڈ ہیں جو FATF کے تحت ناقابل برداشت ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اکانومی پر سیاست کے بجائے اکنامک ایشوز مل جل کر حل کریں۔ ’’چوروں ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ والا ڈائیلاگ بدلنے سے ہی سیاسی منظر نامہ بدلے گا۔ عمرانی دور حکومت کی کالادھن سفید کرنے کی پہلی سکیم منظوری کے بعد منظرعام پر آگئی۔ نقد رقوم بنک میں جمع کراکے 4 فیصد ٹیکس ادائیگی اور رئیل اسٹیٹ FBR ویلیو کی ڈیڑھ گنا قیمت پر 1.5 فیصد ٹیکس دیکر کلیئر ہوگی۔ بیرون ملک اثاثے وطن نہ لانے کی صورت میں 2 فیصد مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ سکیم سے استفادہ کرنے والوں کو ٹیکس فائلر بننا ہوگا۔ بیلنس شیٹ دوبارہ بنا سکیں گے۔ سیلز ٹیکس نظام سے باہر تاجر اس سے فائدہ اٹھا کر ماضی کی ذمہ داریوں سے بری ہو جائینگے۔ بے نامی اثاثوں کو بھی سفید کرایا جا سکے گا۔ سکیم 30 جون تک ہے۔ سرکاری‘ عوامی عہدیدار مستفید نہیں ہو سکیںگے۔ ڈاکومینٹیشن کی بہتری کیلئے کتابوں میں اثاثہ جات لانے کی اجازت ہوگی۔ ریونیو پیدا کرنے کی حقیقی صلاحیت کارپوریٹ سیکٹر میں ہے۔ ایف بی آر کو کاروباری مراکز پر چھاپوں سے روک دیا گیا ہے۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی اصطلاح کا تو علم تھا‘ لیکن مولا بخش چانڈیو ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے مالی سہولت کاروں کی اصطلاح سامنے لے آئے ہیں۔ اپوزیشن کے نزدیک وزیراعظم نے وہی کیا جس پر ماضی میں تنقید کرتے تھے۔ رزق کیلئے لفظ حرام اورحلال استعمال ہوتا ہے‘ لیکن شاہد خاقان عباسی کی نظر میں (ن) لیگ کی ایمنسٹی سکیم عمران خان کے خیال میں حرام اور ان کی اپنی لائی سکیم حلال ہے۔ اب سکیم کے فیض یافتگان کا حکومت کے نزدیک حرام مال حلال ہونے جا رہا ہے۔ سٹیٹ بنک نے تسلیم کیا ہے مہنگائی دگنی ہو گئی ہے اور مزید بڑھے گی۔ شرح سود 12.25 فیصد کر دی گئی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024