مکہ مکرمہ کی تاریخ کا ایک اہم دن یہ بھی تھا کہ جب آقا کریم ﷺ نے مکہ والوں کو بلایا اور فرمایا کہ ’آپ نے مجھے کیساپایا؟‘ سب نے بیک زبان کہا کہ ’محمدﷺ جیسا صادق اور امین ہم نے نہیں دیکھا۔ آپؐ جیسا لطیف ہماری زندگیوں میں نہیں آیا۔‘ پھرآپؐ نے فرمایا کہ ’ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ پہاڑ کے اس پار سے ایک لشکر آپ پر حملہ آور ہونے والا ہے؟‘ تو سب نے بیک زبان کہاکہ ’ہم بالکل یقین کریں گے۔‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ہم نے مذہبی سکالرز سے سنا ہے کہ پھر آپؐ نے ایک سوال اور کیا کہ’ اگر تم پہاڑ کے اس پار جاو اور دیکھو کہ لشکر نہیں ہے ؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ پھر ہم سمجھیں گے ہماری آنکھیں دھوکہ کھاگئیں کیونکہ آپؐجھوٹ نہیں بول سکتے۔
وقت گزرتا گیا۔ ایک اور منفرد دن آیا۔ جب آقا کریمؐ نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ آقا کریمؓ نے جناب علیؓ کو بلایا اور فرمایا کہ علیؓ ! یہ امانتیں لوگوں کے سپرد کرکے آنا۔ گویا آپؐ نے یہ بتادیا تھا کہ میرے بعد کوئی صادق وامین ہے تو وہ جناب علیؓ ہیں۔ پھر یار غارؓ کے ساتھ اللہ کے حکم سے نکلتے ہیں۔ مختلف مراحل اور سفر کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے، جہاں یثرت کے بچے اور بچیاں پہلے ہی سے منتظر ہیں اور آج یثرب کی قسمت جاگنے والی ہے اور یثرب کے لوگ خاص طورپر بچوں میں انتہائی خوشی کی لہر ہے۔ مکہ کی طرف سے آنے والے راستے پر بے چین نظریں جمی ہوئی ہیں۔ انتظار بسیار کے بعد آخر یثرب کے بچوں کی زبانوں سے آقا کریمؐ کو دیکھتے ہی بے ساختہ نکلا؛
طلع البدر علینا ، وَجَب شکر علینا
اور یثرب مدینہ بن گیا۔ یاد رہے کہ یہ کلام کسی کا لکھا ہوا نہ تھا بلکہ مدینہ کے بچوں نے فی البدیع پڑھا۔ مدینہ کریم کے بچوں نے جب آقا کریمؐ کے نورانی چہرہ اقدسؐ کو دیکھا تو ہی یہ کلام ان کی زبانوں پر رواں ہوگیا۔
سولہ رمضان المبارک فتح مکہ کے دن مجھے مدینہ المنورہ میں آقا کریمؐ کا مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ کی تین رحمتیں خاص ہیں۔ اپنے حبیبؐ کا امتی بنایا۔ اپنا اور اپنے حبیبؐ کا مہمان بنایا اور تیسری رحمت خاص، روز محشر ہوگی جب آقا کریمؐ کی نسبت کے صدقے ہماری بخشش ہوگی۔ میں روضہ رسولؐ پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ
حرم کی زمین اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
میرے آقاؐ بڑے کریم ہیں۔ خیرات دے کر فرماتے ہیں، منگتے کا بھلا ہو۔ آخر کار میں خیالوں کی دنیا میں کھوگیا۔ ایک عجیب کیفیت ہوئی کہ یہ وہ مدینہ منورہ ہے کہ جب صحابہ کرامؓ آقا کریمؐ سے جنت کا موسم دریافت کرتے تو آقاؐ فرماتے کہ صبح مدینہ ، جو مدینہ المنورہ کی صبح ہے۔ یہی جنت کا موسم ہوگا۔ یہ وہ مدینہ ہے جہاں میرے آقاؐ کے قدم لگے ہیں اور مقام ادب ہے۔ گنہگاروں کے لئے جائِ پناہ ہے۔ یہیں پر ایک دن جناب حسینؓ اور حسنؓ کی آپؐ کشتی کروارہے تھے اور فرماتے جارہے تھے شاباش حسین! شاباش حسین! وہ کیسے حسین لمحات ہوں گے جب سیدہ فاطمۃ الزھراؓ نے فرمایا کہ بابا! حسن بھی آپؐ کا بیٹا ہے۔ آپؐ حسینؓ کو ہی شاباش دے رہے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ فاطمہؑ میں ہی نہیں جبرئیل ؑ بھی حسینؓ کو ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔ شاباش حسین! شاباش حسین! یہ وہی مدینہ ہے جب حسنین کریمینؓ کے رونے کی آواز آئی تو آقاؐ بے چین ہوجاتے اور فرماتے فاطمہؓ ان کو رونے نہ دیا کرو، مجھے ان کے رونے سے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ کیسی گھڑیاں ہوں گی جب نماز میں ننھے منے حسینؓ آقاؐ کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتے اور آقاؐ سجدہ مبارک طویل فرمادیتے۔
یہیں ایک دن ایک گانے بجانے والی عورت آقا کریمؐ کے پاس آتی ہے، عرض کرتی ہے، یامحمدؐ! میری مدد فرمائیں۔ آپؐ فرماتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتی۔ وہ عورت کہتی ہے، محمدؐ! میں ابھی مسلمان نہیں ہوتی، آپؐ بس میری مدد فرمائیں۔ پھر آپؐ سوال فرماتے ہیں کہ کیا بات ہے، آپ کا آج کل کاروبار نہیں چل رہا۔ عورت کہتی ہے کہ نہیں میرے پاس جو سردار آتے تھے جنگ بدر میں سارے مارے گئے۔ آج کل میرے گھر میں فاقے ہیں۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو نہیں کہاکہ اس کی مدد کریں بلکہ اپنے خاندان والوں سے فرمایا کہ اس کی مدد کریں۔ یہ ہے اسلام اور ریاستِ مدینہ۔
فتح مکہ کا دن آتا ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ بغیر خون بہائے ایک تاریخی فتح ملتی ہے جس سے ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے اور اس موقع پر آقا کریمؐ ہندہ جیسی عورت کو جس نے حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، جسے معافی کی امید ہی نہیں تھی، آقاکریمؐ اسے بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ ابوسفیان جو مکہ سے بھاگ کر جارہا تھا، حکم ہوتا ہے کہ آج اسے ہی نہیں جو اس کے گھر میں پناہ لے گا، اسے بھی معاف کردیاجائے گا۔
جب آقا کریمؐ دیوارکعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، ایک شخص نے اوپر سے پتھر پھینکا کہ آپؐ کو نقصان پہنچا سکے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کعبہ کی چابیاں کس کو دی جائیں، اپنی اپنی جگہ پر بڑے جید صحابہ کرامؓ خواہشمند تھے اور جناب علیؑ بھی چاہتے تھے کہ یارسولؐ اللہ کعبہ کی چابیاں مجھے عطا فرمادی جائیں مگر چشم فلک نے ایک اور نظارہ دیکھا۔ آقاؐ پر پتھر گرانے والا سمجھ رہا تھا کہ مجھے تو کسی صورت معافی نہیں ملے گی، آقاکریمؐ اسے بلاتے ہیں، وہ دبے پاؤں نظریں جھکائے جب سرکاردوعالمؐ کے سامنے پیش ہوتا ہے تو آپؐ فرماتے ہیں، جاتجھے بھی معاف کیا اور یہ کعبہ کی چابیاں بھی تیرے پاس ہی رہیں گی، یہ ہیں میرے آقاکریمؐ صادق اور امین۔
کائنات میں ماں نے صرف ایک ہی صادق اور امین پیدا کیا ہے اور وہ حبیب خدا، رحمت اللعالمین وجہ تخلیق کائنات جناب رسول اکرمؐ کی ذات اقدس ہے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024