مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد اکرم چوہدری اخبار میں روزانہ کالم لکھتے ہیں۔ ان کے 20مئی 2019کو شائع ہونیوالے کالم ’’کیا میرا حاکم نہیں جانتا‘‘ سے چند اختتامی جملے ۔ ’’آج ہر پاکستانی سوال کرتا ہے کہ میرا حاکم کب سے اپنے چندہ دینے والوں کے چنگل سے باہر نکلے گا۔ آج ہر پاکستانی یہ سوال کر رہا ہے کہ میرا حاکم کب آزادانہ فیصلے کریگا۔ کب تصویر کا دوسرا رخ دیکھے گا۔ کب عام پاکستانی کے مسائل کیلئے اقدامات کریگا۔ آج مجبور ، محکوم ، بے بس ، مظلوم اور حالات کے جبر کا شکار ہر پاکستانی اپنے حاکم کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ لیکن کیا ان کا حاکم بھی انہیں دیکھ رہا ہے یا پھر ان کا حاکم صرف اپنے چندہ دینے والوں کو دیکھ اور سن رہا ہے‘‘ ۔کالم نگار نے انکے کالم سے یہ تحریر من و عن نقل کر دی ہے ۔اس سے آپ ان کے کالم کے ذائقے کا قیاس کر سکتے ہیں۔کیا یہ لب و لہجہ کسی حکومتی ترجمان کا ہو سکتا ہے ؟ ان کیلئے پنجاب کی لوک دانش سے یہی مشورہ ہے۔ اکہو پاسا رکھ نی ہیرے۔ کھیڑے رکھ۔ یا رانجھا۔ لاہور کے اتوار بازاروں کا معائنہ کرتے ہوئے اخبارات میں ان کی حاکمانہ رنگ روپ والی تصویریں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ لیکن ان کے کالم سے انکشاف ہوا ہے کہ حاکم کوئی اور ہے جن سے وہ مخاطب بلکہ گلہ گذار ہیں۔کیا ان کا تعلق حکومتی جماعت سے نہیں؟ ایک بات یاد آگئی ۔معاہدہ تاشقند پر دستخط کرتے ہوئے تصاویر میں وزیر خارجہ ذو الفقار علی بھٹو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ اس معاہدے سے خوش نہیں۔اللہ معاف کرے نہ ہی چوہدری محمد اکرم ، بھٹو ہیں ، نہ ہی ان کے بھٹو کے سے مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پھر آخر وہ اپنی حکومت سے خفا تحریروں سے چاہتے کیا ہیں؟ بہر حال میاں نواز شریف کے حمایتی ان کی تحریریں سوشل میڈیا پر بڑے اہتمام سےShare کر رہے ہیں۔ گھر کی گواہی کا توڑ بہت مشکل ہے۔ عمران خان پر ’’اے ٹی ایم کارڈ ‘‘رکھنے اور چندہ دینے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے الزامات مخالف کیمپ سے آتے رہے ہیں۔ اپنوں کی باری اب آئی ہے ۔ ’’اے ٹی ایم کارڈ‘‘ سے مراد جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان ہیں۔ رہا چندہ دینے والے لاکھوں لوگ ، وہ پاکستان سمیت ملکوں ملکوں پھیلے ہوئے ہیں۔ اب کیا کیا جائے کہ عمران خان نے اپنی پارٹی بھی چلانی ہے اور اپنے رفاعی ادارے بھی چلانے ہیں۔جو لوگ رفاعی اداروں کو چندہ نہیں دے سکتے ، وہ اپنے ضمیر کی خلش مٹانے کیلئے ان اداروں اور انہیں چندہ دینے والوں کا مذاق ضرور اڑاتے ہیں۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں ایک مقرر کہنے لگا۔ ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے ایک روپیہ خیرات کرنے میں ستر روپوں کا ثواب ملتا ہے ۔ایک شرارت آمیز سرگوشی کالم نگار کے کان تک پہنچی۔ ’’ اگر خیرات بلیک منی سے کی جائے تو کیا اجر پھر بھی ستر گنارہے گایا کوئی کٹوتی ہوگی؟‘‘۔ کالم نگار کہے بغیر نہ رہ سکا ۔ جو شخص خود خیرات دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کم از کم مخیر حضرات کا احترام کر لے کہ یہ بھی کچھ خرچ کئے بغیر ثواب کمانے کا آسان راستہ ہے ۔ باقی ’’عام پاکستانی ‘‘کے سوالات کا جواب ،یوں ہے ۔ جب کسی حکومت کو قرض ادا کرنے کیلئے اور قرض لینا پڑے تو سمجھو کہ پنجابی محاورے کے مطابق اس کے ’’ ستو مک گئے ہیں‘‘۔ پھر ان حالات میں اس نے جیسے تیسے کر کے کام چلانا ہوتا ہے ۔ پنجابی محاورہ ’’ستو مک جانے ‘‘کے معنی آپ ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاندار پلاک پنجابی ڈکشنری سے دیکھ سکتے ہیں۔ زرداری جاتے ہوئے دو ارب خسارہ چھوڑ کر گیا تھا۔ نواز شریف اس خسارے کو بیس ارب تک پہنچا کر آنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب رہے ۔اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں انہوں نے آنیوالوں کیلئے کانٹے بونے کے سوا کچھ نہیںکیا۔ ادھر عوام کے حکومت سے تعاون کا یہ عالم ہے کہ بجلی کے شدید بحران میں مبتلا اس ملک کے تاجر اپنی دکانداری سورج کی روشنی میں کرنے کوہرگز تیار نہیں۔ وہ اس کیلئے سورج کے ڈوبنے کا انتظار کرتے ہیں۔پھر آپ کو میاں شہباز شریف کے بیٹے کا برفانی چیتا اور اس کے لئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ برفاب گھر ضرور یاد ہوگا۔کالم نگار نے اس زمانے میں نوائے وقت میں ’’میاں شہباز شریف اور برفانی چیتا ‘‘کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا تھا۔ مفتی تقی عثمانی سمیت ہمارے ستائیس علماء ابھی بمشکل یہاں تک پہنچ پائے ہیںکہ نفع کی خاطر ڈالر کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے ۔ نفع کیلئے رہائشی پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں خاموشی کیوں ہے ؟ کیا ان کی پروا ز ڈالروں سے کم اونچی ہے؟پھر ایک مقروض ملک کے اثاثے اونے پونے نرخ پر خریدنا یا کرایہ پر لینا ، انکے بارے میں مذہبی حلقے خاموش کیوں ہیں؟ عمران خان کی حکومت کیخلاف نیب کو مطلوب طاقتور لوگوں کی مزاحمت پوری قوت سے جاری ہے ۔حکومتی وسائل کی لوٹ مار نے انہیں بہت طاقتور بنا دیا ہے ۔ عمران خان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اچھے دن آگے آنے والے ہیں۔ اللہ عمران خان کوضرور کامیاب کریگا۔آخر میں ایک ’’اے ٹی ایم کارڈ‘‘ عبدالعلیم خان کا بیان پڑھ لیجئے۔ ’’ماضی کا سیاسی اور معاشی ملبہ حکومت کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ ہم اپنے کپتان کے دست و بازو ہیں۔ انکا بھرپورساتھ دیتے ہوئے وطن عزیز کو مشکلات سے ضرور نکالیں گے ‘‘۔ پھر انہوں نے غصے میں اپنی بات یوں مکمل کی ۔ ’’اگرآپ کی رائے کے مطابق عمران خان نو ماہ میں کوئی تبدیلی لا نے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا اقتدار انہیں واپس لوٹا دیا جائے جو ملک کو تیس برسوں میں یہاں تک لائے ہیں‘‘ ؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024