یقینا پاکستان قدرت کا عطا کردہ انمول تحفہ ہے جو لیلتہ القدر کی مقدس سعتوں میں نازل ہوا مگر اس کے قائم ہونے کے بعد بہت زیادہ قربانیاں دینا پڑیں۔ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کرکے خطے میں اپنی برتری کا اعلان کیا ۔ ایسے حالات میں دو ہی راستے نظر آئے ہم نیپال بھوٹان کی طرح بھارت کی ذیلی ریاست بن کر جیئیں یا آخری معرکے کی تیاری کریں لہذا فیصلہ ہوا کہ حالات کیسے ہی مشکل ہوں ہمیں چاہے جتنی تکلیفوں سے گزرنا پڑے مگر مقابلہ کیا جائے گا ۔ بھٹو نے جوہری طاقت حاصل کرنیکا فیصلہ کیا ۔ قدرت کی عنایت اور فیاضی ملاحظہ فرمائیے جیسے اقبال کے خواب کی تعبیر کیلئے محمد علی جناح کو فرشتہ بنا کر نازل کیا ایسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کے خیال کی تکمیل کیلئے رب رحمن اور رحیم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس بے حال اور شکست خوردہ قوم پر رحمت بنا کر بھیجا۔
1971ء سقوط ڈھاکہ کے بعد دنیا کی نظروں میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہ رہی مگر عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے سامنے لانے کے لئے تیاری کر رہی تھیں جس کا ثبوت اس دور کی بھٹوکی تقریروں میں ملتا ہے ۔1974ء کے بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد بھٹو نے ایٹمی پروگرام پر عمل کی ٹھان لی ۔1974ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نصرت ربانی کی صورت میں میسر ہوگئے اس سے پہلے پاکستان میں جوہری علوم کی کوئی لیبارٹری یا لائبریری نہ تھی اور نہ ہی کوئی ایٹمی سائنسدان تھا ۔ مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے کہ اتنے بڑے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول قومی غیرت اور حمیت نے اس ناممکن عمل کو عالم ممکنات میں تبدیل کر دیا۔ محب وطن لوگوں کا ایک لشکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں تیار ہو چکا تھا جس نے جانفشانی سے کام کرکے آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان کو جوہری قوت سے لیس ملک بنا کر وطن کا دفاع ناقابل تسخیر کر دیا ۔1976ء میں شروع ہونے والا یہ مقدس مشن 1984ء میں اپنی آب و تاب کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ محسن ملت جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 10دسمبر 1984ء جنرل ضیاء الحق کو تحریری طورپر اطلاع دی کہ ہم انشاء اللہ ایک ہفتے کے نوٹس پر دھماکہ کر سکتے ہیں ۔ ہماری قومی زندگی میں یہ واحد منصوبہ ہے جس پر پوری قوم متفق تھی۔ مسلم اکثریت کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کئی قومیتیں اور لسانیت پروان چڑھ رہی ہے ان قیادتوں نے ہی اس زرعی ملک میں آٹا چینی دالیں ناپید کر دیں ۔ مہنگائی بیروزگاری ، لاقانونیت کے باعث یہی لوگ ہیں جو قیام پاکستان کی بنیاد اسلام سے منحرف ہو چکے ہیں مگر تمام ناکامیوں نامرادیوں سفاکیوں اور بدمعاشیوں کے باوجود پاکستان کا جوہری پروگرام وہ واحد ایشو تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو ، ضیا ء الحق ، جونیجو ، غلام اسحق خان ، فاروق لغاری ، بے نظیر بھٹو ، نوازشریف اور پرویز مشرف سب نے اس کی تیاری میں آبیاری کی اور حفاظت میں تاریخی مثبت کردار ادا کیا ۔
پاکستان جوہری قوت تو بن چکا تھا مگر دنیا کو بتانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار تھا ۔ چودہ سال بعد طاقت کے نشے میں بدمست ہندوبنئے نے 11مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکہ کرکے اپنی کھال سے باہر آتے ہوئے پاکستان کو ڈرانا شروع کر دیا جس کشمیر پر پاکستان تین جنگیں لڑ چکا اور آدھا ملک گنوایا وہ کشمیر جہاں استصواب رائے کیلئے پنڈت نہرو اقوام متحدہ گیا آج پاکستان سے منسلک کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں ۔ سفارتی آداب سے گری گفتگو پر اتر آئے ۔ یہ کڑے امتحان کا وقت تھا ایک طرف ملک کی بقا، قومی غیرت اور وقار تھا دوسری جانب عالمی قوتوں کا دبائو اور پابندیوں کا خوف کارفرما تھا اس ماحول میں مجید نظامی نے اس خوب انداز سے وزیر اعظم کو مشورہ دیا " میاں صاحب ! دھماکہ کرنا لازمی ہے ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی " آخر فیصلہ ہو ا کہ دشمن تو ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے دھماکہ نہ کیا تب بھی مرنا ہے کیوں نہ ہم ایٹمی طاقت بن کر باوقار طور پر مقابلہ کریں ۔ اگر ہم مریں گے تو زندہ دشمن بھی نہ رہے گا ۔ کمزوری جنگ کو دعوت دیتی ہے ۔ طاقت کا توازن امن کا باعث ہوتا ہے ۔ اس سے قبل 16اپریل 1998ء کو شاہین اور غوری میزائل کے کامیاب تجربے ہو چکے تھے دوسری جانب بھارت سے خفیہ رپورٹ موصول ہو رہی تھی کہ فلاح شہر میں لڑاکا بمبار طیارے جمع ہو رہے ہیں ۔ دشمن پاکستان کو دھماکہ کرنے سے پہلے ہی دھماکے کے مقام کو تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ہمارا تجربہ ناکام قرار پائے لہذا مصلحت کے تحت وقت اور جگہ کا اعلان نہ کیا گیا آخر کار 28مئی کا سورج طلوع ہوا وہ دن جس پر پوری امت مسلمہ نازاں ہے ۔ پاک فوج اور سائنسدانوں نے ایٹمی دھماکے کیلئے بلوچستان کے علاقہ چاغی کا انتخاب کیا جہاں درجہ حرارت 55 درجے سینٹی گریڈ تھا ۔ کوبرا سانپوں کی آماجگاہ ہے ۔ خدا کی رحمت اور کرم سے کسی شخص کو نقصان نہ پہنچا موقع پر موجود تمام افراد نے اپنے پروردگار کے حضور کامیابی کی دعاکی اور ٹھیک ساڑھے تین بجے بٹن دبا کر دھماکہ کر دیا ۔ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ صرف بارہ سیکنڈ بعد چاغی کے پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہوگیا کیونکہ وہاں درجہ حرارت دس لاکھ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اس کے بعد دنیا کے عجیب رویے اور منظر دیکھنے میں آئے ۔ پورے عالم اسلام میں جشن کا سماں تھا ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024