’’میرے پاس ایسی بہت سی وڈیوز ہیں میں چیئرمین نیب کے پول کھول رکھ دوں گی۔ میں چیلنج کرتی ہوں کہ ان وڈیوز کو جعلی ثابت کریں کیا قانون اندھا ہوگیا۔ میرے خلاف اورمیرے خاندان کے خلاف تین مقدمات اسلام آباد میں درج کیے جاچکے ہیں۔"
وہ وزیراعظم عمران خان عالمی اداروں سے مدد کی اپیل کر رہی ہیں۔ یہ طیبہ گل ہیں جوبڑی اور دلیری سے نئی وڈیو میں جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیلنج کررہی ہیں۔ویسے اس ہائی پروفائل ڈرامے کا سکرپٹ رائٹر بھی کوئی باکمال فنکار ہے جو تمام آئینی اور قانونی نزاکتوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔ عہدہ بچ بھی جائے کیا ہوا ماتھے کا اقبال تورخصت ہوچکا! جسٹس (ر) جاوید اقبال کا پر شکوہ اورشاندار کیرئیر عجیب المناک موڑ پر ختم ہورہا ہے۔یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ جج صاحب گہری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی سازش کا شکار ہوئے ہیں سیاسی اور خون آشام مافیاز ان کے تعاقب میں تھے۔ یہ سازش اس مبینہ انٹرویو سے شروع ہوئی جس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ یہ سب"کس"کی ہدایت پر کیا گیا تھا اس کے پس پردہ اصل محرک کون سی متبرک ہستیاں تھیں۔ یہاں بہت سے ماہرین اپنے اہداف اورمقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس کا ان سے معمولی شناسائی رکھنے والوں کوبخوبی اندازہ ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ جج صاحب نے کالم نگار بلا کر خود مصیبت کو دعوت دی ورنہ اگر وہ اپنے مشیر اطلاعات ‘ہمہ صفت ، نوازش علی خان عاصم سے مشورہ کرلیتے تو اس خوامخواہ کی مصیبت سے بچ جاتے۔ نیب کے سربراہ ہمہ جہتی سازش کا شکار ہوئے ہیں جس میں ("The Honey Trap")کے خوبصورت پھندوں کے ساتھ ساتھ دیگر ترغیبات کوبھی شاہانہ انداز میں استعمال کیا گیا‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جج صاحب بڑے "والہانہ"اندازمیں خاتون سے گفتگو کررہے ہیں اور وہ خاتون بھی مہارت سے کیمرہ ریکارڈنگ اور وڈیو بنانے کے لیے استعمال کرتی رہیں خاص طورپر اپنے چہرے کوبڑی مہارت سے بے نقاب کرنا ظاہرکرتاہے کہ موصوفہ گزشتہ کئی ماہ سے اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین کی زیرنگرانی موبائل فون کے خصوصی استعمال کی تربیت حاصل کرتی رہی ہیں۔ واشنگٹن میں مقیم ان امور کے ایک ماہر نے بتایا کہ اس خاتون کو فون کیمرے کے استعمال کی مہینوں پر محیط تربیت دی گئی تھی جس سے اس سازش کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال بری طرح پھنس گئے ہیں ان کے گرد گھیراتنگ ہوتاجارہا ہے۔ ان کے حوالے سے منظرعام پر آنے والی تمام وڈیوز اصلی ہیں اسی لیے مختلف اطراف سے ان کے فرانزک تجزیے پر زوردیا جارہا ہے اورجناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اب افراتفری میں شاید قانونی تقاضے پورے کیے بغیراس "بلیک میلر"جوڑے کیخلاف ریفرنس دائر کردیا گیا ہے۔ جس سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ نجی مافیا کیساتھ ساتھ بعض حکومتی اہلکار بھی جج کا سر قلم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مادام طیبہ کی ایک نئی وڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں انہوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ مزید وڈیوزمنظرعام پر لائیں گی اورانہیں بے نقاب کرکے رکھ دیں گی ایک جانے پہچانے مافیا سے تعلق رکھنے والا اخبارنویس کھل کر میدان میں نکلا ہے۔ جس کے سارے خاندان کو برس ہا برس سے بھائی کی نوکری کی آڑ میں پالا جارہا ہے۔ اب حق نمک ادا کرنے کا وقت آیا ہے۔ تو اپنے "شریک کار"کی مدد کیلئے قلم بدست قصیدے پڑھتے ہوئے میدان میں نکلا ہے۔
سندھ ساگر تہذیب کے راوی فلسفی داستان گو، قانون دان اعتزازاحسن نے کہا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی قانونی پوزیشن پر کوئی اثرنہیں پڑا‘ لیکن اخلاقی پوزیشن مسمار ہوگئی ہے۔ چیئرمین نیب کو اس ٹیپ کا فرانزک کروانا چاہیے۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ اس خاتون نے چیئرمین نیب کو ٹریپ کیا ہے۔ چیئرمین نیب والی ٹیپ میں بظاہر ان کی اپنی آواز لگتی ہے‘ لیکن جب تک ثابت نہ ہو، چیئرمین نیب کو شک کا فائدہ ملے گا۔ چیئرمین نیب کو اس ٹیپ کا فرانزک کروانا چاہیے اورایف آئی اے اس کی تہہ تک پہنچے معروف آئینی ماہر وسیم سجاد اور خالد انور نے چیئرمین نیب کو فوری طور پر ہٹانے کی بجائے معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وسیم سجاد نے کہا کہ وزیراعظم کو تحقیقات کا حکم دینا چاہئے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا طویل اور بے داغ عدالتی کیریئر ہے۔ وسیم سجاد نے کہا کہ تحقیقات کیلئے ایسی اعلیٰ سطح کی ٹیم ہونی چاہیے جس پر کسی کو شک نہ ہو، حکومت چاہے تو اس معاملے میں جوڈیشل انکوائری بھی ہوسکتی ہے۔ معروف قانون دان خالد انور نے کہا کہ چیئرمین نیب عہدہ چھوڑ دیتے ہیں تو ان کی جگہ نئے چیئرمین کا تقرر مشکل کام ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ازخود تحقیقات شروع کیں تو اس پر الزام آئے گا کہ وہ چیئرمین نیب کو ہٹانا چاہتی ہے۔ خالد انور نے کہا کہ چیئرمین نیب کی اس معاملہ میں کردار کشی ہو رہی ہے‘ وہ خود بھی چاہیں گے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہو۔مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی اس ملتا جلتا مطالبہ کیا ہے۔
چہارسو سے اعلی سطحی تحقیقات کے مطالبے دراصل جج صاحب کا سر قلم کرنے کیلئے کیے جارہے ہیں۔ جج صاحب کا دفاع کرنے والاکوئی نہیں رہا اب وہ سنگ دشنام اور تیرالزام تن تنہا برداشت کررہے ہیں کہ شکست کاکوئی والی وارث نہیں ہوتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024