ذہنی مریض بے روزگار انجینئرز
کچھ عرصہ قبل پاکستان کی ایک ٹاپ انجینئرنگ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ انجینئرز نے اسلام آباد میں ایک ولایتی قسم کا تندور لگایا جہاں دیسی نان کو ولایتی ناموں کا تڑکا لگا کر سینکڑوں میں فروخت کیا جاتا ہے اور ہمارے میڈیا نے ان کی مظلومیت اور بے روزگاری دکھانے کی بجائے اسے ایک کامیاب سٹوری قرار دیا ہے۔ عوام الناس اکثر ان کی مثالیں دیتی ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا جن طلبہ نے دن رات محنت کی کہ ملک کی بڑی جامعہ میں داخلہ لے سکیں۔ آج وہ سب چھوڑ چھاڑ کر ایک تندور لگانے پر کیوں مجبور ہو گئے؟ انجینئر بننے کا جذبہ جو بچپن سے ان کے دلوں میں تھا وہ کہاں چلا گیا؟
بانی پاکستان قائداعظم نے ہمیشہ نوجوانوں کو بے حد اہمیت دی اور انہیں تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ قرار دیا تھا۔ نوجوانوں نے بھی قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ کس قدر دکھ کی بات ہے۔ آج کے پاکستان میں ہم نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں بے روزگاری کے سیلاب کی نذر کر دیا۔ وطن عزیز میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ کیا سیاستدان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے استعمال کرتے رہیں گے؟ کیا حکومت نوجوانوں کو مناسب روزگار دینے کی بجائے انہیں سبز باغ دکھاتی رہے گی؟ اس بہتی گنگا میں نجی مافیا نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔ نجی کالجز پیسے دے کر ہائر ایجوکیشن کمشن اور پاکستان انجینئرنگ کونسل سے منظوری لے رہے ہیں جس کی وجہ سے انجینئرنگ کا معیار بدتر ہو گیا ہے۔ لاہور میں نجی یونیورسٹیز نے بی ایس انجینئرنگ ویک اینڈ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ اس طرف ایچ ای سی کی کوئی توجہ نہیں‘ یونیورسٹیز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ایک تازہ مثال بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان کے احتجاجی انجینئرز ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انجینئرنگ کونسل کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کا مستقبل کھائی کنارے کھڑا ہے۔ حکومت انجینئرنگ یونیورسٹیز کی دکانداری بند کروائے۔ حکومت ذرا فوجی فرٹیلائزرز سے بھی جواب طلب کرے کہ وہ کس بنیاد پر ایم ٹی او کی تعیناتی کرتے ہیں اور کیوں وہ این ٹی ایس جو کرپشن کا گڑھ ہے کے ذریعے بھرتیاں کر رہے ہیں؟
پنجاب حکومت نے حال ہی میں میڈیکل آفیسر کی 1382 آسامیوں کا اعلان کیا اور انجینئرز کیلئے ’’نولفٹ‘‘ کا بورڈ لگا رکھا ہے۔آسامیاں اگر جاری بھی کی جاتی ہیں تو صرف ایک یا دو۔ پاکستان میں تقریباً ہر چھ ماہ بعد انجینئرز بیج پاس آؤٹ ہو رہا ہے۔ وہاں یہ آسامیاں اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں۔چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ میڈیکل کالجز کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ کا بھی جائزہ لیں اور نئے انجینئرنگ کالجز کھولنے پر پابندی عائدکی جائے اور مزید انجینئرز بے روزگار ہونے سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم 3 برس کیلئے انجینئرنگ میں داخلوں پر پابندی عائد کی جائے۔ اس سے جو بے روزگار پہلے سے موجود ہیں ان کو روزگار مل سکے گا لیکن اس کے ساتھ انڈسٹریز کی نگرانی ہونی چاہئے کہ وہ میرٹ پر انجینئرز ریکروٹ کریں ورنہ اس پابندی کا کوئی فائدہ نہیں۔ بھارت میں اس وقت تقریباً 6 لاکھ انجینئرز بے روزگار ہیں۔ اندازہ کریں وہاں کس قدر ذہنی دباؤ اور پریشانی کا عالم ہو گا؟ کیا آپ چاہتے ہیں وہی ٹینشن زدہ ماحول یہاں بھی پیدا ہو جائے؟ اس وقت کئی نجی بنکوں میں انجینئرز اور ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان معمولی کمیشن پر مشکل ترین کام ’’قرضے دینے کیلئے کسٹمر‘‘ کی تلاش کا فریضہ انجام دے رہے ہیں یا پھر قرضوں کی ریکوری کیلئے گلی محلوں کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ ٹرینی انجینئر کے لئے بھی ہمیں ٹیسٹ انٹرویوز دینے پڑتے ہیں جبکہ ڈاکٹرز کی بغیر کسی ٹیسٹ کے ہاؤس جاب ہو جاتی ہے۔ تمام اداروں کے پاس ریکروٹمنٹ کیلئے ایک بھاری بجٹ ہوتا ہے پھر کیوں امیدواروں سے ٹیسٹ فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔بے روزگاروں کو تو ٹیسٹ فیسیں ہی مار دیتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے امتحان لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا بعد میں اس ادارے نے بھرتی کیلئے ٹیسٹ لینے کا سلسلہ شروع کیا اور آج این ٹی ایس کا دائرہ کار بے حد وسیع ہو چکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے بڑے بڑے سرکاری نیم سرکاری اداروں‘ خود مختار کارپوریشنز اور نجی اداروں نے امیدواروں کے انتخاب کی ذمہ داری خود اٹھانے کی بجائے این ٹی ایس پر کیوں ڈالی ہے؟ دوسری اہم بات بے روزگار نوجوانوں سے ان کی تعلیمی اسناد کی فوٹو کاپیوں اور تصاویر کے دو یا تین سیٹ اور ساتھ500 سے 3000 تک کے پے آرڈر یا بنک ڈرافٹ کس کھاتے میں لئے جاتے ہیں؟ اور ساتھ اپنی سی وی اور سرٹیفکیٹس لازماً ای میل بھی کرے اور ہارڈ کاپی پوسٹ کرے جس پر تقریباً دو سو روپے خرچہ آتا ہے۔ آخر بے روزگاروں پر اس قدر زیادتیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس ذہنی تشدد نے انہیں نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ صوبائی اور وفاقی پبلک سروس کمشن کے امتحانی نظام اور انٹرویوز کرنے کے طریقہ کار پر پوری قوم کو اس لئے اعتماد ہے کہ وہاں تمام کام میرٹ پر ہوتے ہیں اور سفارش کلچر کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ تمام حکومتی ادارے اس طرح کی مثالی کارکردگی کیوں نہیں دکھا سکتے؟ فوری طور پر تمام ٹیسٹنگ ایجنسیز کو ختم کیا جائے اور وفاقی پبلک سروس کمشن کے ماتحت ٹیسٹنگ ایجنسی قائم کی جائے تاکہ تمام نیم سرکاری اور نجی ادارے اس سے بھرتیاں کریں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے امتحان بھی یہی ادارہ لے۔
دوسری جانب تھری فورجی ٹیکنالوجی کے آغاز کے وقت موبائل کمپنیز نے ٹیلی کمیونیکشن انجینئرز کی بھرتی کیلئے انٹرویوز کئے لیکن انہوں نے انجینئرز کی بجائے ٹیکنیشن کو بھرتی کیا۔ قائداعظم سولر پارک کے قیام سے لے کر آج تک انجینئرز کی کوئی آسامیاں نہیں آئی‘ جتنے پاکستانی انجینئرز کام کر رہے ہیں وہ سب سفارشی ہیں جن کا میرٹ سے کوئی واسطہ تعلق نہیں۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں جو انڈسٹریز قائم ہیں ان کے ہیڈ آفس لاہور میں ہیں جس کی وجہ سے سارا ریونیو لاہور کے کھاتے میں جاتا ہے۔ تجربہ کے بغیر انجینئرز کو جاب نہیں دی جاتی۔ ہاؤس جاب میں ڈاکٹرز کی تنخواہ60000 اور انجینئرز کی 20000 روپے۔ گدھوں کی طرح انجینئرز سے کام کروایا جاتا ہے۔ انجینئرز کو انڈسٹری نے اپنا نوکر سمجھ رکھا ہے۔ ان کی کوئی قدر ہی نہیں۔ تمام انڈسٹریز پر لازم ہونا چاہئے کہ وہ ہر سال کم از کم 100 انجینئرز کو ٹریننگ دیں اور باقاعدہ ایک ٹریننگ سیکشن قائم کریں۔ سپروائزری سرٹیفکیٹ کے پیچھے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو بھی روکنا ہو گا۔ ہمارے انجینئرز بھائیوں کو اپنا پی ای سی پیسوں کی خاطر فروخت کرنے کے بعد جاب مانگتے ہوئے شرم آنی چاہئے کہ انڈسٹریز جاب نہیں دیتی۔ آپ نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے جب انڈسٹریز کا چند ہزار میں کام ہو جاتا ہے تو انہیں جابز آفر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے معاہدہ کرے اور پاکستانی انجینئرز کو وہاں بھیجے تاکہ انہیں مختلف ماحول میں کام کرنے کا موقع ملے ۔
اور انڈسٹریز کا شکوہ بالکل جائز ہے کہ اس کو کوالٹی انجینئرز نہیں مل رہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ نجی انجینئرنگ کالجز کی بھرمار کی وجہ سے انجینئرنگ کا معیار گر چکا ہے اور باقی کسر انجینئرز نے خود پوری کردی ہے۔