آخری وار
یہ اگست 2014ء کی ایک خوشگوار سہ پہر تھی میں داڑھی بنوانے کی غرض سے ایک دکان میں داخل ہوا یہ استنبول سے دور ایک باربر شاپ تھی۔ دکاندار پکی عمر کا ایک سنجیدہ شخص تھا جس کے چہرے پر خوشی واضح تھی میں اس کی اس خوشی کی وجہ بھی جانتا تھا‘ مگر پھر بھی میں نے اس سے پوچھا تو اس نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے دکان میں موجود ٹیلی ویژن کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں طیب اردگان کی ترکی کے انتخابات میں مسلسل چوتھی فتح کا اعلان ہو رہا تھا۔
میں نے باربر سے پوچھا۔۔۔؟
تو لوگ طیب کو اتنا پسند کرتے ہو۔۔۔؟
وہ مسکرایا۔۔۔!!
پھر کہنے لگا‘ یہ نل دیکھ رہے ہو اس نے دکان میں لگے پانی کے واش بیسن کی جانب اشارہ کیا تھا۔
کہنے لگا۔ طیب اردگان کی حکومت سے پہلے بھی یہ نل یہیں تھا‘ مگر اس میں پانی نہیں آتا تھا۔ اور جب تک اس نل میں پانی آتا رہے گا ‘ ہم طیب کو ووٹ دیتے رہیں گے۔ قارئین کرام!
مجھے یاد نہیں کہ مجھے یہ واقعہ میرے سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران میرے کسی دوست نے سنایا یا میں نے کسی کتاب‘ کسی کالم میں پڑھا‘ مگر یہ مجھے یاد ہے اور اکثر کو یاد ہو گا۔ 16جولائی2016ء کی رات کا وہ منظر دنیا نے دیکھا تھا جب ترکی میں فوجی بغاوت نے طیب اردگان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہا۔۔ جیسے ہی فوجی ٹینکوں اور دستوں کی صدارتی محل کی جانب حرکت کی خبر ہوئی تو ترک عوام اپنے صدر کے حق میں ٹینکوں کے آگے تھے‘ انہوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر طیب اردگان کی رہائش گاہ تک جانے والے ٹینکوں کا راستہ روک دیا تھا۔ گویا ترک عوام اور نوجوانوں کے ایک جم غفیر نے اپنے محبوب صدر کی رہائش گاہ کو اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا تھا۔
یقیناً نواز شریف بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف پاکستانی عوام بھی اسی طرح سڑکوں پر ہوتے۔ میں مانتا ہوں کہ جناب نواز شریف‘ ان کے وزراء ‘ بالخصوص چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے تئیں خوب زور لگایا۔ 2007ء اور اس کے بعد کے کئی سالوں میں بجلی جس کے جانے کا وقت تو مقرر ہوتا تھا مگر آنے کا وقت نہ تھا۔ وہ اب ان چار سالوں میں آنے جانے لگی ہے پنجاب کے مختلف شہروں میں میٹرو بسیں چل رہی ہیں۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین نے ا پنے سفر کا آغاز کر دیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بھر کے بیسیوں اضلاع کے ہسپتالوں میں آج بھی طبی سہولیات کا فقدان ہے آج بھی لاکھوں بچے اپنے والدین کی معاشی مجبوریوں کے باعث سکول نہیں جا رہے سرکاری نظام تعلیم روبہ زوال ہے‘ شہری علاقوں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر بدستور موجود ہیں جا بجا گلیاں اور روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ مہنگائی کا جن آج بھی بوتل سے باہر ہے میرٹ چاروں شانے چت‘ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ تو مل رہے ہیں مگر روزگار نہیں‘ صنعتیں بند یا محدود ہو رہی ہیں‘ سرمایہ دار حکومت کی معاشی پالیسیوں اور گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان ہو کر اپنا سرمایہ اور صنعتیں دبئی‘ بنگلہ دیش اور چین منتقل کر رہے ہیں۔
شہری علاقوں کے عوام ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ چوریاں‘ ہیرا پھیری اور ذخیرہ اندوزی عام ہے جن کے سدباب کے لئے کوئی منظم اور ملک گیر منصوبہ بندی نہیں کی گئی‘ مرغی‘ سیب‘ دودھ اور بکرے کا گوشت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے اور پاکستان بھر کے کروڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی ان کی دہلیز پر میسر نہیں اور جناب نواز شریف آپ کی وزارت عظمیٰ کے چار اور آپ کی پارٹی کی حکومت کے پانچ سال گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں‘ کروڑوں پاکستانی ہیں جن کے گھر‘ دفتر یا دکان کے نل میں پانی نہیں آتا تو پھر یہ کیونکر ممکن تھا پاکستان کے عوام بھی آ پکی نااہلی کے فیصلے کے خلاف اسی طرح سڑکوں پر ہوتے اور عدالت عطمٰی کو آپ کے خلاف نااہلی کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرتے۔
جناب نواز شریف! پاکستان بھر سے کروڑوں عوام 30سال سے آپ سے دیوانہ وار محبت کرتے رہے۔ آپ کا اپنا چھوٹا بھائی آپ کو اپنے سر کا تاج اور پارٹی اپنا قائد مانتی رہی‘ لیکن ممبئی حملوں کے حوالے سے تازہ ترین انٹرویو جس میں آپ کے مطابق گویا ان حملوں کو براہ راست حکومت پاکستان یا افواج پاکستان کی پشت پناہی حاصل رہی سے تو ایک طرف تو دشمنان پاکستان کے بیانیے کو تقویت پہنچی ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے اور دوسری طرف 30,35سالوں سے آپ کے ساتھ کھڑے‘ آپ سے پیار کرنے والے‘ آپ سے محبت کرنے والے آپ کے پارٹی ممبران‘ ورکرز اور پاکستانی عوام ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے ہیں۔
اسلام‘ پاکستان اور افواج پاکستان سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام آپ کے اس تازہ ترین بیانیے کو وطن سے بے وفائی خیال کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور آپ کے درمیان ایک خلیج حائل ہو گئی ہے۔ جن عالمی طاقتوں کے بیانیے کو لے کر اقتدار کے ایوانوں میں واپسی کا خواب آپ کو دکھایا گیا ہے‘ اسی بیایئے نے آپ کے خلاف آپ کے ہاتھوں آخری وار کی صورت آپ کے مخالفین کا کام آسان کر دیا‘ انتخابات سے تھوڑے دن قبل آپ کا یہ بیانیہ بلا شبہ سیاسی خود کشی کے مترادف ہے‘ اس انٹرویو سے گویا آپ نے خود اپنے اس وقت کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کے لئے وزیر اعظم ہاؤس تک کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اب شہباز شریف یا مسلم لیگ ن اس بیان کی ہزار تاویلیں کر لیں‘ سچ یہ ہے میاں نواز شریف کا یہ بیان ایک سانحہ ہے‘ جسے بنیاد بنا کر ہندوستان کے ساتھ ساتھ اب امریکہ بھی پاکستان پر دباؤ بڑھائے گا۔
میں یہ بات سمجھنے سے عاجز ہوں ایک نامناسب وقت پر میاں صاحب کی اس بات کو کسی سازش کا تانا بانا سمجھوں یا حماقت‘ جبکہ غیر جانبدار ملکی و بین الاقوامی مبصرین کی تحقیق کے مطابق اس واقعہ کی حقیقت اب تک مشکوک ہے اور دراصل بھارت کی پاکستان پر یہ الزام تراشی کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو دبانے کیلئے ہے۔ کاش کہ میاں صاحب کو یہ سچ بھی نظر آتا کہ بھارت 78سالوں سے مسلسل کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
کاش کہ میاں صاحب یہی سوال ہندوستان سے اٹھاتے کہ اسے کشمیر میں انسانیت کی پامالی اور آبرو ریزی کا حق کس نے دیا؟
کاش کہ میاں نواز شریف بھارت سے یہ سوال کرتے کہ اسے کس نے یہ حق دیا کہ وہ افغانستان کے راستے اپنے حاضر سروس نیول آفیسر کلبھوشن کو پاکستان بھیج کر سینکڑوں پاکستانیوں کو قتل کرائے؟
جناب میاں نواز شریف آپ نے تو بھارت سے یہ بھی نہ پوچھا کہ اسے کس نے یہ حق دیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی پر ڈاکہ ڈالا؟
پاکستان ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ تو آپ لیتے ہیں مگر ایٹمی پاکستان کی حکومتی پارٹی کے سربراہ و قائد ہونے کے ناطے مارچ سے جاری فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی بیان نہ احتجاج‘ اپنی ذات کے لئے آپ شہر شہر جلسے کر رہے ہیں۔ ایک جلسہ انسانیت کے نام بھی ہو جاتا۔
اے کاش کہ آپ ملک بھر میں پھیلے اپنے ہزاروں‘ لاکھوں ورکروں اور عوام کو کشمیر و فلسطین میں جاری حالیہ تشدد کی لہر پر ُپرامن احتجاج کی کال دیتے‘ اور خود آپ مجمعے کے ساتھ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں احتجاجی یاد داشت جمع کراتے۔ اپنے خطابات میں اسلام و رسول اﷲ ؐ سے سچی پکی وابستگی ‘ وطن سے بے لوث محبت اور وفا‘ قومی یکجہتی کی تلقین اور اداروں و افواج پاکستان سے سارے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں کو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ‘ ترکی بہ ترکی جواب۔ پاکستانی عوام کے دلوں میں آپ کی عزت بڑھا دیتے اور اس سے آپ کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ بھی ہوتا۔
میرا یقین ‘ میرا ایمان ہے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے 1400سو سال بعد 27 رمضان المبارک کو اﷲ کے دین کے نام پر وجودمیں آنے والی اس مملکت خداداد پاکستان کے وفادار ہی فائدے میں اور اس کا نقصان کرنے ولے نقصان میں رہیں گے۔