بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ ولت اورپاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے مل کر ایک مشترکہ کتاب لکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے پاکستانی ڈکٹیٹرز میں سے صدر جنرل مشرف اور پسندیدہ رہنما بے نظیر بھٹو تھیں۔ انہوں نے یہ سیاسی پیشین گوئی بھی کر دی کہ 2018ءکے انتخاب کے بعد شاہد خاقان عباسی ہی وزیراعظم پاکستان ہوں گے۔ ان کی کچھ باتیں قابل اعتراض ہیں۔ ان کا ذکر بھی ہو گا۔
ان کے بقول صدر مشرف نے کشمیر اور دوسرے متنازع معاملات میں بھارت کے ساتھ مثبت طرزعمل اختیار کیا اور کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ پیش رفت کے راستے سے ہٹ جانے کے لیے کہا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے صدر ایوب اور جنرل ضیاالحق سے مشرف کاموازنہ کرتے ہوئے بھارت کے لیے بہترین قرار دیا ۔ مودی کو لومڑی اور نواز شریف کو اونٹ قرار دیا۔ ان دونوں القاب کی روشنی میں ایک پورے کالم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مشرف کے لیے اپنی پسندیدگی کو امریکہ کے خیالات سے ہم آہنگ قرا ردیا۔ ان کے نزدیک مشرف وہسکی پینے والا اور انگریزی میں بات کرنے والا اچھا انسان ہے۔ اس موقع پر صدر مشرف نے کہا ہے میں صدر ہوتا تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو چھوڑ دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو ایک بہادر انسان کہا۔ انہوں نے بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے کیے لیکن ان کے نزدیک پسندیدہ پاکستانی رہنما بے نظیر بھٹو تھیں۔ انہوں نے زرداری اور عمران کے لیے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ بی بی کے بعد زرداری صاحب نے پارٹی کو بہت تحمل سے سنبھالا ہے۔ عمران کے مستقبل کے بارے میں وہ گو مگو کے شکار ہیں۔ تاہم نواز کو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ جاتا ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے شاہد خاقان عباسی کی تعریف کی ہے۔ وہ ایک قابل اعتماد دوست آدمی ہیں۔ انہوں نے امریکہ سے مشکل تعلقات کو جس طرح سنبھالا اس کی تعریف کی جانا چاہیے۔ ان کا اقوام متحدہ میں خطاب شاندار تھا۔ وہ فوج کے آدمی نہیں ہیں فوج کے ساتھ مفاہمیت کی بات چودھری نثار کے لیے کی جاتی ہے۔ مگر وہ ایک کونے میں دب کر بیٹھ گئے ہیں۔ شہباز شریف کی موجودگی میں خاقان عباسی کا خود کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا مگر وہ نواز شریف کا انتخاب ہیں اور یہ بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
مشرف بھارت کے لیے پسندیدہ تھا اور پاکستان کے لیے؟ اس کے لیے بھی درانی صاحب کچھ فرماتے۔ پھر وہ خود کیا نہیں لکھ سکتے تھے۔ بھارتی ہم منصب اس کے لیے کیوں ضروری تھا۔ ایسی کوئی بات بھارت کے لیے نہیں لکھی گئی۔ کیوں نہیں لکھی گئی؟ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے لوگ یہ بھی کرتے ہیں اور خفیہ نہیں کرتے۔ اعلانیہ کرتے ہیں۔ حیرت ہے!
اگر یہ کتاب بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر نہ لکھی جاتی تو اس کے لیے ردعمل کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ یہ تو کتاب لکھنے کی بات ہے اور وہ منظر عام پر بھی آ گئی۔ وہ جو منظر عام پر نہیں آئیں۔ اس کے لیے سانجھی کتاب کب آئے گی۔ درانی صاحب اور بھارتی ہم منصب کہاں ملتے رہے اور کیا کیا کرتے رہے۔ ان کی دوسری کتاب کب آ رہی ہے۔ اب کتاب امرجیت سنگھ کی آنا چاہیے۔ وہ کبھی اپنے ملک کے لیے کوئی ایسی ویسی بات نہیں لکھیں گے۔ یہ جرات مندانہ بے شرمی پاکستان میں کی جا سکتی ہے اور کی جاتی رہتی ہے۔ یہ کہنا کہاں کی بہادری ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے اغوا کے سلسلے میں پاکستان اور امریکہ کا اتفاق رائے تھا جبکہ اس وقت ہم مسلسل اس کی تردید کرتے رہے تھے۔ اس واقعے کو لوگ بھول گئے مگر درانی صاحب کو شاید ان کے بھارتی ہم منصب نے یاد دلایا ہو۔ درانی صاحب پاک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر رہے ہیں اور اپنی ہی فوج کے لیے اس قدر غیرفوجی غیر قومی اور غیرضروری بات کی ہے۔ پاک فوج سے اتنی محبت پاکستانی عوام کرتے ہیں کہ 65ءکی پاک بھارت جنگ میں جو جنگی ترانے لکھے گئے تھے آج بھی لوگوں کے دلوں پر لکھے ہوئے ہیں۔
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
عمران کو ووٹ دینے والوں کو مبارک ہو کہ آج وہ قومی اسمبلی میں پہنچ ہی گئے۔ ایک صحافی کے سوال پر عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے یاد بھی نہیں کہ کب قومی اسمبلی میں اس سے پہلے آیا تھا۔ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایک مصرعہ پڑھا۔ اس سے یہ تو خوشی ہوئی کہ سیاستدان شعر و ادب میں دلچسپی لینے لگ گئے ہیں مگر کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ انہوں نے عمران خان پر تنقید کی ہے یا ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
سعدیہ قریشی آج اپنے کالم ”امکان“ میںعافیہ صدیقی کے انتقال کی خبروں کے حوالے سے کہتی ہیں ”امریکہ میں مقیم پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے عافیہ صدیقی سے ملاقات کی اور کنفرم کیا کہ عافیہ صدیقی ابھی زندہ ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ بقید حیات ہے۔“ زندہ ہونے میں اور بقید حیات ہونے میں فرق آج محسوس ہوا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024