اُمت مسلمہ دہشتگردی کے بھنور میں
پاکستان موجودہ حالات میں اپنی مشکلات کے باوجود کشمیر اور فلسطین سمیت دُنیا بھر میں نہتے بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر مسلسل احتجاج کر رہا ہے بلکہ اسے روکنے کی غرض سے اخلاقی مدد وتعاون کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی اپنی کوشیشیں جاری رکھے ہوئے ہے ۔غزہ میں اکٹھے ساٹھ فلسطینیوں کی اجتماعی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر پچھلے دنوں ترکی کے شہر استمبول میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں بھی پاکستان کی انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فلسطین کے مسئلہ کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سلسلے میں مل کر آواز اُٹھانے کی بات کی ہے ۔ترک صدر طیب اردگان کی زیر صدارت ہونے والے اِس اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے لئے مل کر آواز اُٹھانا ہو گی،سلامتی کونسل فلسطین سے متعلق اپنی قرارداد پر عمل کروائے ،سلامتی کونسل اپنی قرارداد پر عمل نہ کرواسکے تو جنرل اسمبلی میں آواز اُٹھائی جائے مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی ستر برسوں سے مظالم کا شکار ہیں ۔ وزیر اعظم کے بیان پر غورکیاجائے تو اُن کا اشارہ سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی کی طرف ہی ہے جو سفارتی تقاضوں کے مطابق بالکل درست و مناسب فورم ہے مگر جہاں تک ہماری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو یہ چونکہ سفارتی آداب و ضوابط کی قید سے آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ یکسر مختلف ہے اس لئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار یا دِقت محسوس نہیں ہو رہی کہ بے شک دُنیا کو درپیش مسائل کے حل کا آئینی و قانونی فورم سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی ہی ہے اور مسلمان ملکوں کو اِن اداروں کے ساتھ مل کر اپنے مسائل حل کرنے چاہیں مگر چونکہ یہ دونوں ادارے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اس لئے اب کسی بھی عالمی ادارے کی طرف دیکھنے کی بجائے ضرورت اُمت مسلمہ کی قیادت یعنی سعودی عرب کو جگانے کی ہے ،ہماری اس دیرینہ رائے کو ترک صدر کے اِن ریمارکس سے بھی تقویت مل رہی ہے جن میں انہوں نے القدس کے قبضہ پر خاموشی اختیار کرنے والی اقوام متحدہ کو ساٹھ سے زائد فلسطینیوں کی ھلاکت میںبرابر کا شریک ٹہرایا۔اس کے علاوہ ترک صدر کا یہ کہنا بھی کہ عالم اسلام القدس کے امتحان میں ناکام رہا ہے، ہم اپنے قبلہ اول کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو خانہ کعبہ کے تحفظ پر کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں یقینا سعودی قیادت کی جانب ہی بلاواسطہ مگر معنی خیز اشارہ ہے جس سے ہم پورا پورا بلکہ دو سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کیونکہ سعودی عرب ہی واحد اسلامی ملک ہے جسے مسلم قیادت کہا یا سمجھا جاسکتاہے۔او آئی سی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ او آئی سی بھی دوسری اقوام متحدہ ہے جسے سعودی عرب کی مرضی سے چلایا جارہا ہے ،اگر اقوام متحدہ امریکہ کی مرضی کے تابع ہے تو او آئی سی بھی سعودی عرب کے تابع دکھائی دیتی ہے جس نے آج تک فلسطین کشمیر سمیت دُنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی ۔پچھلے سال یو ہنگیا کے بے گنا ہ معوم مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا مگر کیا مجال کہ او آئی سی ٹس سے مس ہوئی ہو ،ستر برسوں سے مقبوضہ کشمیر کے نہتے بے گناہ مسلمانوں پر قیامت ڈھائی جارہی ہے جس کے خلاف پاکستان تن تنہا سینہ سپر ہے مگر مقام افسوس کہ او آئی سی تو کجا کسی بھی مسلم ملک نے کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے بات نہیں کی نہ ہی اس کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنا تک گوارا کیا علاوہ ازیں فلسطین عراق ،بوسنیا ،شام ،مصر افغانستان سمیت دُنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان زیر عتاب رہے یا زیر عتاب ہیں یہاں بھی او آئی سی سوئی نظر آتی ہے ،ہاں البتہ ایک بار مسئلہ کشمیر کی حمایت میں بیان جاری کیا گیا او آئی سی کی طرف سے جس پر ہمیں خوشی ہوئی تھی اوراپنے کالم کے زریعے اسے خراج تحسین پیش کیا تھا مگر اس مسئلہ پر بھی محض بیان ہی جاری کیا گیا اقدامات رتی بھر بھی نہیں اُٹھائے گئے یہ تمام صورتحال زہن میں رکھی جائے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ او آئی سی اپنے قیام کے مقاصد پورا کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے لہذا اسے تحلیل کر کہ ایک نیا اسلامی بلاک تشکیل دیا جائے جس کی باگ دوڑ پاکستان کے ہاتھوں میں ہو ۔ہمیں خوشی اُس وقت بھی ہوئی جب پچھلے سال سعودی عرب کی طرف سے نیٹو کی طرز پر باون اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک اسلامی فوج قائم کی گئی ،ہم سمجھے کہ چلو اچھا ہوا اب امریکہ یا اس کے کسی بھی اتحادی کی کیا مجال کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک پر چڑھائی کرکہ وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کر سکے جیسے عراق مصر شام افغانستان میں کیا گیا مگر ہمیں اُس وقت یہ جان کر سخت مایوسی ہوئی جب پتہ چلا کہ یہ اسلامی نیٹو یہود و نصاریٰ کے خلاف نہیں بلکہ صرف سعودی اغراض و مقاصد کیلئے بنایا گیا ہے ۔
استمبول اجلاس کی کاروائی پر غور کیا جائے تو اس میں پاکستان کے بعد ترکی کا موقف بڑا جاندار اور جارحانہ نظر آتا ہے جس کے صدر طیب اردگان نے بہت آگے بڑھ کر فلسطین کے مسئلہ پر امریکہ کی مخالفت کی جس پر ہم انہیں خرا ج تحسین پیش کرتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اسرائیل دہشتگرد ملک ہے ،اسرائیل نے فلسطین میں جو کچھ کیا وہ سراسر بدمعاشی ،ظلم اور ریاستی دہشتگردی ہے جس پر اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے۔ترک صدر کے مطابق کہ اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے سے مراد عالمی برادری ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کا احتساب کرے مگر پوری دُنیا اور تمام عالم اسلام بخوبی جانتا ہے کہ اسرائیل کا احتساب اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکہ اُس کی پشت پر کھڑا ہے اس لئے اس تناظر میں نہ صرف او آئی سی کی از سر ِ نو تشکیل کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے بلکہ سعودی قیادت کے تحت بننے والے اسلامی نیٹو کو فعال بنا کراسے پوری اُمت مسلمہ کی ضروریات کے مطابق استعمال کئے جانے کی منصوبہ بندی بھی لازمی ضرورت قرار پاتی ہے تاکہ مستقبل میں عراق شام مصر افغانستان پاکستان جیسے واقعات کو روکا جا سکے بلکہ قبلہ اول کی حرمت و تقدس کے پیش ِ نظر اسے اسرائیلی و امریکی تسلط سے آزاد کروا کر مذہبی فریضہ ادا کیا جا سکے ۔ہمیں خوشی ہے کہ موقع ایسا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں یہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ اسلامی فوجی اتحاد کی کمان اس وقت پاکستان کے مایہ ناز سپوت جنرل راحیل شریف کے مضبوط ہاتھوں میں ہے جو اگر ارض پاک کو دہشتگردی سے پاک کرسکتے ہیں تو اُمت مسلمہ کو بھی مصائب و مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جس کیلئے وہ فٹ بھی ہیں اور کروڑوں اربوں مسلمانوں کی دعائیں بھی اُن کے ساتھ ہوں گی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ امت مسلمہ دہشتگردی کے بھنور سے نہ نکل سکے۔