دو نمبر لوگ مسلط نہ کریں
عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہیں اور حکومت اب چل چلائو میں ہے دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بھی جیت کیلئے کمر کس چکی ہیں ۔ لیگی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے جا رہے ہیں مگر اسے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح کام نہیں کرنے دیا گیا ۔میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا اس سے پہلے میاں صاحب نے خود اپنے دو وزراء اور ایک مشیر کو برطرف کیا اب وہ بتا رہے ہیں کہ ان کا یہ اقدام ملکی مفاد میں تھا ۔ اب وہ بتا رہے ہیں کہ انہیں ایک فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہ نے طویل رخصت پر جانے کیلئے یا پھر استعفیٰ دینے کیلئے کہا ۔اب وہ بتا رہے ہیں کہ دھرنا کیوں ہوا وغیرہ وغیرہ ۔یہ ایسے واقعات ہیں جو میاں صاحب بتاکر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ و ہ ان سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود خاموش رہے کیونکہ ان کو ملکی مفاد زیادہ عزیز تھا ۔ میاں صاحب سے سوال یہ ہے کہ آیا ہر بار ملکی مفاد کیلئے سیاستدان ہی قربانی کیوں دیتے ہیں دوسرے کیوں نہیں دیتے ہیں ۔ میاں صاحب نے ملکی مفاد میں عدالتوں کا سامنا کیا اور اپنی وزارت عظمیٰ کی قربانی دی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ظلم کی انتہاء یہ ہوگئی ہے کہ ان کی بیٹی کو کٹہرے لا کھڑا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے ۔میاں صاحب کا یہ کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے حکومت سنبھالی تو ان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں ۔ ابتداء میں دھرنوں نے حکومت کو مفلوج کئے رکھا اس وقت میاں صاحب کی حکومت کی خاتمہ کے چرچے عام تھے ۔ لگتا ایسے تھا کہ حکومت چند دن کی مہمان ہے ۔ پارلیمنٹ پر حملے ہو چکے تھے ججوں سمیت پارلیمنٹرین اپنے اپنے دفاتراور اسمبلی میں جانے سے قاصر تھے مشکلات ریڈ زون میں تھی ۔اس لاک ڈائون کو آج بھی ن لیگ کی قیادت ایک ہمدردی کے کارڈ کے طورپر پیش کر رہی ہے ۔ اس وقت پیپلز پارٹی آگے بڑھی اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کیلئے ن لیگ کا بھر پور ساتھ دیا ۔پی پی کی اعلٰی قیادت کو یہ بھی یقین تھا کہ میاں صاحب اس مشکل وقت سے نکل کر پھر ہمیں بھول جائیں گے اور اپنی پرانی روش پر آ جائیں گے۔خیر اللہ اللہ کرکے عدلیہ اور فوج نے مل کر یہ دھرنا ختم کرایا ۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے نہ ہوتے تو شاید یہ دھرنا کوئی صورتحال پیدا کر جاتا ۔میاں صاحب کے دور میں سی پیک شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اس کی گارنٹی اب سیاستدانوں کی بجائے پاک فوج اور پچھلے دنوں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی چین میں جاکر دے آئے ہیں ۔ چیف صاحب چین میں ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے ۔ سیاستدانوں کے منصوبوں پر سیاستدانوں کا حق ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کے آئین میں ملک کے معاملات چلانے کااختیارسیاستدانوں کو حاصل ہے ۔ اب اگر سیاستدان ہی کمزور پڑجائیں اور ایک خلاء پیدا ہو جائے تو اس خلاء کو پر کرنے کیلئے کسی نہ کسی کو آگے آنا پڑتا ہے ۔ یہی ہورہاہے ۔ پرویز مشرف دور کے بعد پی پی نے پانچ سال پورے کئے مگر وہ بھی لولے لنگڑے پانچ سال تھے ۔ اس میں بھی میاں صاحب کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔میاں صاحب اب اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں تو سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ ان کی غلطیوں کو بڑے پن کے ساتھ معاف کر دیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست سے ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے یہ وقت بتائے گا مگر اس کا کردار بھی میا ں صاحب سے مختلف نہیں ہے ۔ پی پی پارٹی نے اپنی زبان کا پاس رکھا۔ میاں صاحب کو تقریباً چار سال تک تنگ نہیں کیا ۔ پاکستان تحریک انصاف نے وہی کچھ کیا جو ن لیگ نے پی پی کے خلاف کیا ۔ اس کے نتائج بھی مختلف نہیں ہے پی پی کا وزیراعظم گھر کیا مگر حکومت نے مدت پوری کی ۔ اب ن لیگ کا وزیراعظم گھر گیا اور ان کی حکومت مدت پوری کرنے جارہی ہے ۔ اب لگتا ایسا ہے کہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ ن لیگ اور پی پی کو اقتدار نہیں ملے گا اس بار پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار دیا جائے گا ۔ اگر پی ٹی آئی کو اقتدار ملتا ہے تو پھر اس کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس کیلئے حکومت کبھی بھی پھولوں کا سیج نہیں ہوگی کیونکہ اس کو اپوزیشن میں ن لیگ ٗ جے یو آئی ف ٗ اے این پی اور پیپلز پارٹی کا سامنا کرنا ہوگا ۔ پاکستان میں حمایتی کسی بھی وقت اپنا قبلہ پھیر سکتے ہیں اس کا اندازہ موجودہ حالات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ عام انتخابات کیلئے ایک بار پھر عدلیہ کا سہارا لیا جا رہا ہے جس پر پی ٹی آئی اور پی پی پی نے شدید تنقید کی تھی اور دوہزار تیرہ کے انتخابات کو پی پی نے آر اوز کے انتخابات قرار دیا تھا اور پی ٹی آئی بھی سابق چیف جسٹس پر الزامات لگاتی رہی تھی ۔ عام انتخابات سے انتخابی اصلاحات نہ کرسکنا بھی سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور نااہلی ہے اسکے بعد اگر کچھ ہوگا تو پھر خلائی مخلوق کا نام لینا زیادتی ہوگی ۔ ہر جماعت نے اپنی آئینی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔ اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں پر امید ہیں کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہونگی ۔ جیت کیلئے ہر جماعت پر جوش ہے اور ابھی سے بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں ۔ عام آدمی کا تو یہ خیال ہے جو ان کے ساتھ سلوک کیا گیا ہے کوئی جماعت اس قابل نہیں کہ اقتدار میں آ ئے ۔ بہرحال کسی نہ کسی نے تو جینا ہے چاہے وہ اپنے بل بوتے پر ہو یا پھر کسی کی مدد سے ۔ مدد کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ خدا را اس ملک پر رحم کریں اور دو نمبر لوگوں کو ہم پر مسلط نہ کریں۔