(ن) لیگ حکومت کی مجموعی کارکرگی ناقدین کی تنقید کی زد میںہے اور حامیوں کی جانب سے اسے اوجِ ثریا تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اس نقطۂ نظر کو قبول کر لینا چاہئے کہ اس کا صحیح فیصلہ آنے والے انتخابات میں عوام کر دیںگے۔ چنانچہ کسی جمع تفریق میں پڑے بغیر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ (ن) لیگ کے ایک وزیر خواجہ سعد رفیق نے ریلوے نظام میں قابل ذکر بہتری لانے کا اعزاز ضرور حاصل کر لیا ہے۔ ریلوے ساری دنیا میں آمدورفت کا کم خرچ‘ آرام دہ اور محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے بجا طورپر غریبوں کی سواری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ادوار بالخصوص ییپلزپارٹی کے دور میں ریلوے جس زبوں حالی کا شکار رہا ہے یہ ماضی کی تاریخ نہیں‘ آج کی آنکھوں دیکھی حقیقت ہے۔ زرداری حکومتی سیٹ اپ کا دور تھا۔ میری مرحومہ بیوی کے بھتیجے کی شادی کی تقریب تھی‘ کراچی کیلئے قراقرم ایکسپریس لاہور سے نصف گھنٹے لیٹ روانہ ہوئی اور کراچی اڑھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔ واپسی پر حد ہو گئی۔ مجھے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پانچ گھنٹے کراچی کینٹ سٹیشن پر جس ذہنی کوفت اور اذیت کے ساتھ گزارنے پڑے‘ وہ میں ہی جانتا ہوں۔ مسافروں کو بتا دیا جاتا مگر مسلسل اعلانات ہوتے رہے۔ کراچی سے جانے والی قراقرم ایکسپرس بیس منٹ بعد آرہی ہے۔ کبھی آدھا گھنٹہ بعد آرہی ہے۔ یوں ’’آرہی ہے‘‘ کا ’’لولی پاپ‘‘ دیکر مسافروں کو بہلایا جاتا رہا۔ خواجہ سعد رفیق کے وزارت سنبھالنے کے بعد دوستوں احباب سے سنا تھا ریلوے کا نظام کافی بہتر ہو گیا ہے۔ ٹرینیں وقت پر آجا رہی ہیں۔ راستے میں انجن فیل ہونے کے یا تیل ختم ہونے کے باعث فلاں سٹیشن پر کھڑی ہے اور مسافر احتجاج کر رہے ہیں۔ ایسی خبریں بھی آنا تقریباً بند ہو گئیں۔ تاہم اس کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ تب ہوا جب اپریل میں بزنس ایکسپریس کے ذریعہ ہنگامی طورپر حیدرآباد جانا پڑا۔ صحافت میں میرے جونیئر ساتھی اورریلوے کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نجم ولی خان اور چھوٹے بھائیوں جیسے انفارمیشن آفیسر اعجاز شاہ نے اپنے اثرورسوخ سے چند گھنٹے قبل مجھے نشست دلوا دی۔ بزنس ٹرین ٹھیک ساڑھے تین بجے لاہور سے روانہ ہوئی اور مقرہ وقت پر سات بجنے میں ایک منٹ باقی تھا حیدرآباد ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم میں داخل ہو رہی تھی۔ لیٹرینوں کی صفائی ستھرائی خلاف توقع تھی۔ لوٹوں کی جگہ واش شاورز نے طبیعت نہال کر دی۔ واپسی پر بھی یہی خوشگوار تجربہ ہوا۔ 4 مئی کو دوبارہ نائٹ کوچ سے جانے اور 6 مئی کو بزنس سے واپسی کا اتفاق ہوا‘ لوئر اے سی کلاس میںاے سی کی ایسی ٹھنڈک کہ رات کو کمبل لیکر سونا پڑا۔ صحافی دانشور شمس الدین افغانی کا قول ہے حکومتی کارکردگی میں بہتری کیلئے تنقید صحافی کا پیشہ ورانہ فرض اور اچھی کارکردگی کی تحسین اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اپنی صحافت کی پچاس سالہ زندگی میں یہ قول ہمیشہ میرے پیش نظررہا ہے۔ میں اسے مثالی نہیں کہتا کہ اس میں بہتری کی مزید گنجائش ہے‘ لیکن ریلوے میں جتنا کچھ ہوا‘ اس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے بیانات اورگفتگو سے لگتا ہے بعض حلقوںکے طرزعمل سے وہ قدرے مایوسی کے احساس کا شکار ہوئے‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے گزشتہ دنوں جو سفر کئے‘ ہر نقطہ نظر اور مختلف سیاسی رجحان رکھنے والے لوگ میرے ہم سفر تھے مگر سب نے ایک ہی بات کی چلو ریلوے میں تو بہتری آئی ہے۔ ہر روز ہزاروں مسافروں کی جانب سے ملنے والے تعریفی سرٹیفکیٹ سے بڑھ کر انہیں اور کیا چاہئے‘ تاہم زیادتی ہوگی اگر اس قابل قدر بہتری میں ریلوے کے اعلیٰ حکام سے کانٹے والے ملازم تک کے خواجہ سعد رفیق سے بھرپور تعاون اور جانفشانی کا اعتراف نہ کیا جائے۔قارئین کرام کو یاد ہوگا میں نے گزشتہ دنوں کالم میں نشاندہی کی تھی کہ یہ جو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی سربراہی میں ایک وفد کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے شکایت لیکر عالمی بنک کے حکام سے ملنے جا رہا ہے‘ اس سے سیر سپاٹے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ عالمی بنک واضح طورپر بھارت کی جانب جھکائو رکھتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق عالمی بنک نے سندھ طاس معاہدہ میں اپنے کردار کو محدود بیان کرکے پاکستانی وفد کو ٹکا ساجواب دیدیا ہے۔ اشتر اوصاف اچھے وکیل ہونگے مگر قانون کے میدان میں کوئی معرکتہ آراء پیش رفت ان کے نام نہیں ہے۔ البتہ میاں نوازشریف کیلئے بہت قابل اعتماد ہیں اور اٹارنی جنرل کا منصب اس کا صلہ ہے۔ عالمی بنک سے جواب تو یہی ملتا لیکن اگر یہ وفد آبی ماہرین پر مشتمل ہوتا تو وہ کم از کم ایسی بات تو کرتے جس سے بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا۔ وہ ٹکا سا جواب سن کر خاموشی سے تو واپس نہ آتے۔
ڈان پر اگرچہ بانی قائداعظم تحریر ہے مگر یہ اخبار ایسی رپورٹس شائع کرنے کی شہرت رکھتا ہے جو قائداعظم کے پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں پہلے سیرل المیڈا کی ڈان لیکس کے حوالے سے رپورٹ دوسری بار اسی سیریل المیڈا کی ممبئی واردات کے حوالے سے میاں نوازشریف کے انٹرویو پر مبنی رپورٹ اور اب مبشر زیدی نامی اس سے وابستہ صحافی کی بھارتی اخبار’’ہندو‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ کہ چینی صدر شی جن پنگ نے بائو فورم میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے 35 منٹ علیحدگی میں ملاقات کی جس میں دس منٹ صرف حافظ سعید پر تبادلہ خیال ہوا اور چینی صدر نے مشورہ دیا کہ حافظ سعید کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے وقتی طورپر کسی مغربی ایشیائی ملک بھیج دیا جائے۔ چین کی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا ہے۔ بائو فورم کے موقع پر صرف اقتصادی معاشی ایشوز زیربحث آئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس کی واضح تردید کی ہے۔ ایسی رپورٹ شائع کرکے اخبار کیا حاصل کرنا چاہتا ہے یہ تو وہی جانتا ہے مگر ان رپورٹوں سے عالمی سطح پر پاکستان کیلئے مشکلات ضرور پیدا ہوسکتی ہیں۔ یعنی ایسے موقع پر جب میاں نوازشریف کے ممبئی واردات کے حوالے سے بیان کو پاکستان دشمن طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس واردات میں بھارت کی جانب سے مرکزی کردار حافظ سعید کے بارے میں چینی صدر کے منفی بیان سے ان طاقتوں کو بھی تقویت مل سکتی ہے کہ حافظ سعید ضرور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں کہ چین کے صدرنے بھی مشورہ آمیز نوٹس لیا ہے جبکہ بھارت تادم تحریر ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا بلکہ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور بھارتی راء کے سابق سربراہ دلت کی مشترکہ کتاب میں بھی جو کئی حوالوں سے متنازع ہے‘ یہ اعتراف کیاگیاکہ بھارت حافظ سعید کے ممبئی واردات میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں دے سکا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38