ایک طرف قومی اسمبلی میں فاٹا انضمام بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگیا ہے اور دوسری طرف پنجاب کے اندر سے جنوبی پنجاب کے الگ صوبے ، سندھ میں کراچی سمیت نئے صوبے بنانے کے وعدے اور بحثیں تلخ دائرے میں داخل ہو رہی ہیں ۔ کیا اسے کھلا تضاد نہیں کہا جائے گا۔ ایک طرف پنجاب حکومت کی طرف سے شروع کی گئی معیاری ہائوسنگ سکیم میں کرپشن کی بنیاد پر احد چیمہ جیسے اہم افسر کو نیب کی تحویل میں آئے کئی دن ہو چکے ہیں اور دوسری طرف سرکاری سطح پر ہی شروع کی گئی سرگودھا کی ماڈل ٹائون جیسی سکیم کے الاٹیوں کو محتسب اعلیٰ لاہور ہائی کورٹ سے اپنے حق میں ہوئے فیصلوں پر ایک مدت سے عمل درآمد نہ ہونے کے باوجود تمام متعلقہ افسران سینہ تان کر الاٹیوں کا منہ چڑا رہے ہیں ،آزاد ہیں ۔ کیا اسے کھلا تضاد نہیں کہا جائے گا۔ ایک طرف لاہور کی بعض اہم شاہراہوں کو سگنل فری بنانے کے لئے بے پناہ سرمایہ اور توجہ دی گئی اور دوسری طرف متعدد اہم سڑکوں پر تجاوزات تک کو ہٹانے کی زحمت نہیں کی گئی بلکہ حلقہ 120 میں ایم اے او کالج سے رنگ روڈ تک حلقے کے بیچوں بیچ ازسر نو تعمیر کی گئی مرکزی روڈ پر تجاوزات والوں سے چشم پوشی کی گئی، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، اسی طرح کے متعدد ایسے معاملے ہیں جو عوام کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور جن کی روشنی میں آئندہ انتخابات میں ووٹروں نے فیصلہ دینا ہے۔ عوام نے ماضی کی کارکردگی بھی سامنے رکھنی ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ کون سی جماعت مستقبل میں ان کے لئے کیا عزائم رکھتی ہے۔ عمران خان نے اپنی جماعت کی طرف سے پہلے سو دنوں کا منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ زیر تنقید ہے لیکن تنقید کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ، ایم ایم اے اور دوسری جماعتیں اپنی طرف سے جزوی منشور یا ابتدائی چھ ماہ کے متوقع انقلابی فیصلوں کے بارے میں پروگرام لے کر سامنے آئیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب اہل سیاست کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ہوگی کہ پرانے موج میلوں کا دور گزر چکا۔ انتظامیہ کا حصہ بن کر اب انہیں نئے انداز کی عدلیہ ، فوج اور احتساب کے اداروں سے واسطہ پڑنے والا ہے۔ سو اب سیاست برائے ’’فوج میلہ‘‘ نہیں ہو سکے گا۔ ان دنوں عام انتخابات کے وقت پر ہونے نہ ہونے کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا سنا جا رہا ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے آئندہ انتخابات میں ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لے کر میدان میں اترنے کا ارادہ ہے۔ یہ نعرہ اپنی جگہ اہم ہوگا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس نعرے کی موجودگی میں مسلم لیگ ن کی گزشتہ دور حکمرانی کی کارکردگی پس منظر میں رہے گی۔ اگر وہ اپنے مختلف ترقیاتی کاموں کو خاص طور پر صوبہ پنجاب میں کئے گئے کاموں کو نعرے کی صورت دیتے تو زیادہ موثر ہوتا ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور آصف علی زرداری میاں صاحبان کے تضادات کو اور خاص طور پر کرپشن کے نعرے کو زیادہ بلند کریں گے۔ اس کا توڑ صرف اچھی کارکردگی تھا۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی مشیران بہرحال بہتر جانتے ہوں گے کہ ان کی طرف سے ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کو کارکردگی کے نعرے پر کیوں ترجیح دی گئی ہے۔ بات مختلف تضادات سے شروع کی گئی تھی ۔ فاٹا کو جس طرح خیبر پختونخواہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ووٹوں کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ عجیب بات ہے کہ وہ کام جو مسلم لیگ ن نے جاتے جاتے خود کیا ہے اس کا کریڈٹ بھی دوسری جماعتوں کو جاتا نظرآتا ہے اور پھر اس کے بالکل الٹ بات یہ ہونے جا رہی ہے کہ پنجاب کے اندر سے ایک چھوٹا پنجاب بنا دیاجائے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے اس وقت جو پالیسی سامنے رکھی جا رہی ہے وہ بڑے میاں صاحب کو بچانے کے حوالے سے ہے لیکن اس سے چھوٹے میاں صاحب کی ساری کارکردگی پس منظر میں جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ اگر میاں شہباز شریف کو صحیح معنوں میں فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے کا موقع دیا جاتا۔ ان کی کارکردگی کو فوکس کیا جاتا اور نعرہ بنایا جاتا تو انتخابات میں کامیابی کے بعد بڑے میاں صاحب اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو حقیقت میں ڈھالنا زیادہ ممکن ہوتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024