جواب آ گیا
مجھے کیوں نکالا کا جواب نواز شریف نے خود ہی دیدیا لیکن پورا سچ اب بھی سامنے نہیں لائے شریف‘ عباسی دور مقدموں اور ریفرنسوں کی تعداد کے حوالے سے ایک ریکارڈ دور کہلائے گا پانچ سال میں کسی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت نے اپنے سارے ترقیاتی منصوبے پایہ¿ تکمیل تک پہنچائے نہ ان کیلئے مختص ساری رقم خرچ کی۔ ”میمو گیٹ“ اصغر خان‘ ڈان لیکس‘ پانامہ‘ میٹرو آڈٹ‘ اورنج آڈٹ‘ قائد اعظم سولر پارک آڈٹ‘ نندی پور‘ ریلوے آڈٹ غرضیکہ مقدمات انکوائریوں کی بھرمار ہے‘ فاٹا خیبر پختونخوا میں بالا آخر ضم ہو گیا آئینی ترمیم منظور ہو گئی۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ایک وہ گئیں بل کی حمایت میں 229ووٹ‘ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی‘ غیر حاضر فاٹا اصلاحات بل کے تحت 117سال پرانے ایف سی آر قوانین ختم اور قومی قوانین کا اطلاق ہو گیا فاٹا کو 24ارب کے علاوہ 10کھرب روپے کا خصوصی ترقیاتی فنڈ ملے گا۔ فاٹا انضمام بل کی منظوری کا کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے۔ انضمام کی مخالفت کرنے والوں کا فاٹا ہولڈ کمزور ہو گیا یہی لوگ ڈویلپمنٹ کے خلاف ہیں۔ اچکزئی پاکستان میں رہ کر افغانستان کی سیاست کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قلابازیاں بھی سامنے ہیں قبائلی علاقوں میں جشن کیونکر منایا جا رہا ہے۔ فاٹا کے لوگوں کو پولیٹیکل انتظامیہ اور خوانین کی غلامی سے آزادی ملے گی۔ فاٹا فنڈز کا بیشتر حصہ کرپشن میں جانے سے انفراسٹرکچر آج بھی قدیم ادوار کی یاد دلاتا ہے۔ فاٹا قدامت سے جدت کی طرف سفر شروع کرنے جا رہا ہے۔ سامراجی دور کے ظالمانہ قوانین کی گرفت ختم ہو رہی ہے۔ ملک میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا موسم ہے۔ وکٹیں گرنے اور گرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سارا ملک نیب کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا ہے ہر ترقیاتی منصوبے کے بارے میں اعلان کیا جاتا ہے کہ اتنے ارب کی بچت ہوئی ہے اس بات کی پڑھے لکھے پاکستانیوں کو بھی سمجھ نہیں آتی 4800 میگاواٹ کے گیس پاور پراجیکٹ میں 160ارب کی بچت کیسے ممکن ہوئی؟ بجلی کے نادہندگان کے ذمے الیکٹر سٹی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے 219ارب واجب الادا ہیں۔ صرف 5فیصد وصول کئے جا چکے ہیں موبائل کارڈ پر تو 40فیصد ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے لیکن نادہندگان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ بجلی چوری کا دوسرا نام لائن لاسز ہیں جو 21فیصد تک ہیں ایک فیصد لائن لاسز سے 12ارب کا سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ لائن لاسز ہی تو کمائی کا ذریعہ ہیں!
ن لیگ کے 5سالہ عہد میں 7ہزار میگاواٹ کا تاریخ ساز اضافہ ہوا ہے۔ شاید یہ اضافہ گرڈ سٹیشنز کو ہضم نہیں ہو رہا اسی اضافے کا فیضان ہے کہ کئی شہروں میں گھنٹوں بجلی غائب ہونا معمول بنتا جا رہا ہے روزہ دار دہری آگ میں جلنا شروع ہو گئے ہیں۔ درجہ حرارت 44تک ہو اور اس پر بجلی بھی ساتھ نہ دے تو اس سے زیادہ سخت امتحان اور کیا ہو گا؟ دنیا بھر میں 70فیصد تک بجلی کوئلے سے تیار کی جا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں کوئلے کا چرچا ہے لیکن صرف 5فیصد بجلی اب کوئلے سے تیار ہونے لگی ہے لگتا ہے ایف بی آر کو بھی کسی خلائی مخلوق نے نیب کی طرح کے پر لگا دیئے ہیں اس نے کھربوں روپے سالانہ ٹیکس ہڑپ کرنیوالے ٹیکس چوروں کا سراغ لگا لیا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ 50ہزار اسلامیان پاکستان اربوں ہڑپ کر گئے ہیں۔ کراچی میں ایسے صادق اور امینوں کی تعداد 25ہزار بتائی گئی ہے۔ ایف بی آر اراضی اور عمارتوں کے اعداد و شمار جمع کر کے اس نتیجے پر پہنچی ہے ”عباسی خلیفہ“ کی ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کی ڈیڈ لائن یکم جولائی ہے۔ ملک بھر میں جائیدادیں بنانے اور بیچنے کا عمل جاری ہے لیکن ٹیکس گوشوارہ کوئی بھی جمع نہیں کراتا۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کے اقتدار کے متوقع 100دن کے پروگرام پر مخالفین کے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ترقی کا مفہوم شاید انکے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا نوبل انعام یافتہ اکنامکس کے سارے پروفیسروں کے نزدیک ضرورت سے زیادہ اشیاءکی فراہمی کا نام ترقی ہے یعنی آبادی سے زیادہ ٹرانسپورٹ‘ ریلوے‘ جہاز‘ مکانات‘ ڈاکٹر اساتذہ کا ہونا ترقی ہے کرایہ داروں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گی تو اسے ترقی سے تعبیر کیا جائے گا موٹر سائیکلوں والے گاڑیوں کے مالک بنیں گے وہ دن ترقی کہلائے گا عمران خان نے 40لاکھ گھروں کی کمی پوری کرنے کا عزم کیا تو ہے ایک کروڑ نوکریوں کی بات ہا¶سنگ سیکٹر کے پھیلا¶ سے پوری ہونا ممکن ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرنے والوں نے خود ووٹروں کو کتنی عزت دی‘ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ وہ کچہریوں‘ سرکاری دفتروں‘ تھانوں‘ ہسپتالوں میں دکھے کھاتے رہیں سرکاری کلرک اور افسر انہیں پھرکی کی طرح گماتے رہیں کتنے گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزرائ‘ ارکان اسمبلی‘ سینیٹروں نے ووٹروں کےلئے کھلی کچہریوں کا اہتمام کیا کتنے سرکاری افسروں نے ووٹروں کےلئے اپنے دروازے بلا رکاوٹ کھلے رکھے مہنگائی کا طوفان برپا کرنےوالے منڈیوں کے آڑھتی منافع خور ذخیرہ اندوز‘ ریڑھی والے اور دکاندار اپنی من مانیوں سے ووٹ کو عزت دے رہے ہیں یا ذہنی اذیت سے دوچار کررہے ہیں۔ ووٹر یہی جانتا چاہتا ہے کہ ووٹ کی عزت کیا ہے‘ ہاں جے آئی ٹی نہ بنتی احتساب عدالت میں پیشیاں نہ بھگتنی پڑتیں نااہلی کی سٹمپ نہ لگتی تو پھر کسی کو ”ووٹ کو عزت دو“ کا خیال نہ آتا۔
نواز شریف سینے میں مدفون راز اگلنے کا وعدہ ایفا کر رہے ہیں۔ راز کا دوسرا نام سچائی ہے اس سچائی کا صاحبان عقل و دانش کو علم تھا لیکن میڈیا پر کہنے اور لکھنے سے اجتناب کرتے تھے نواز شریف نے بالآخر انکشاف کر ڈالا کہ سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر نکالا گیا۔ مشرف کےخلاف غداری کا مقدمہ میرا جرم بنا پیچھے نہ ہٹا تو عمران‘ طاہر القادری کو اکٹھا کیا گیا‘ دھرنوں کا طوفان اٹھا اور لشکر کشی ہوئی مشورہ نما دھمکیاں ملیں۔ انٹیلی جنس سربراہ کا پیغام آیا استعفیٰ دو یا رخصت ہو جاﺅ مشرف کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ آپکو مشکلات ہوں گی آنےوالے دن بتائیں گے نواز شریف کا نیا موقف ان کےلئے کتنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے فروری 2018ءمیں نیب قوانین کو کالا قانون قرار دیا تھا۔ 7 اپریل 2018ءکو نواز شریف کا کہنا تھا نیب قانون ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا ہے نیب 2000ءمیں مشرف دور میں پیدا ہوا تھا۔ 4 سال تک بااختیار وزیراعظم ہو کر بھی نواز شریف احتسابی کمشن قائم نہ کر سکے تھے احتساب کمشن میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ کالا قانون ختم نہ کرنے کی غلطی ن لیگ کو ہی بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اچھا ہوا قوم کے سامنے بڑے بڑوں کے سربستہ راز کھل رہے ہیں۔ 54 ارب روپے کے قرضے معاف کرانیوالے 225 افراد‘ کمپنیوں اور بنک سربراہان کو سپریم کورٹ کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔ انہیں 8 جون سے قبل جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے کمپنیوں نے 18.77 ارب کا قرضہ لیا۔ 11.769 ارب واپس نہیں کئے۔ سود کے 23.372 ارب بھی ادا کرنے ہیں۔ انکوائری کمشن نے قرار دیا قرضے قانون کے مطابق معاف نہیں کئے گئے۔ نوٹس گھی‘ پلاسٹک‘ انجینئرنگ‘ گارمنٹس‘ فوڈ‘ ٹیکسٹائل‘ سٹیل‘ کاٹن‘ سپننگ‘ بیوریجز‘ رائس‘ کیمیکلز‘ پیکیجز‘ پیپر‘ خوردنی تیل‘ زراعت‘ ڈیریز اور دیگر شعبوں کی صنعتوں کو جاری کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے کم نہیں اتنے ہی صارفین ہیں۔
مذکورہ صنعتوں میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو خسارے میں نہ چل رہی ہو۔ کیا کسی ایک بھی بنک یا ہاﺅس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے کسی یتیم مسکین یا بیوہ کا قرضہ کبھی معاف کیا ہے۔ یا لیسکو‘ واسا‘ پی ٹی سی ایل یا سوئی ناردرن نے کسی صارف کے بل کو معاف یا کم کیا ہے؟ پھر یہ 225 افراد لاڈلے کیسے ہو گئے کہ 54 ارب روپے معاف کروا گئے اور پھر معاف کرنےوالوں کی کیا مجبوری اور دباﺅ تھا جس کے تحت وہ اپنی نوکریاں بچانے کی خاطر معافی ناموں پر دستخط کرتے چلے گئے۔ 17-18 مالی سال کے 9 ماہ میں بجٹ خسارہ 1.48 کھرب روپے ریکارڈ ہوا ہے جو سالانہ ہدف سے بھی زیادہ ہے حکومتی آمدنی 3.65 کھرب جبکہ اخراجات 5.13 کھرب تھے۔ فنی خرابی اس تیزی سے رونما ہو رہی ہے کہ چند روز میں دوسرا بریک ڈاﺅن سامنے آیا ہے۔ 100 سے زائد گرڈ سٹیشن بند ہوئے‘ حکومتی دعویٰ ہے کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر گئی ہے۔ عمران کا 100 روزہ پلان ن لیگ کےمطابق انکے 2025ءویژن کا چربہ ہے اگرچہ یہ بھی مان لیا جائے تو اچھی باتوں کی تقلید کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی دونوں اس ملک اور اسکے عوام کے خیرخواہ ہیں ن لیگ والے کہتے ہیں عمران سالانہ 1600 ارب روپے کہاں سے لائینگے اس کا جواب ہے کہ وہ خود 2025ءویژن پر عمل کرتے تو وہ خود کہاں سے اربوں روپے لاتے؟ اور سی پیک کےلئے بھی تو پیسہ دوسروں کا ہی استعمال ہو رہا ہے ن لیگی حکومت بھی تو ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر چلتی رہی ہے۔ اگر عمران قرضے لیں گے تو پھر یہ کون سا گناہ ہو گا جو کسی حکمران جمہوری یا غیر جمہوری سے سرزد نہ ہوا ہو۔ احسن اقبال کے نزدیک پاکستانی معیشت تاریخ میں تیسری بار ٹیک آف پوزیشن پر ہے۔ کیا عمران اپنے پہلے 100 دنوں میں اسے کریش لینڈنگ کی طرف لے آئینگے؟