پاکستانی معیشت کا احوال
چند دنوں میں موجودہ اسمبلی اور حکومت کی مدت ختم ہورہی ہے۔ عبوری حکومت بظاہر ساٹھ دن کیلئے ہوگی ۔ انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت سامنے آئیگی۔ گو نئی حکومت کو متنوع مسائل کا سامنا ہوگا لیکن معاشی میدان میں جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ سر فہرست ہونگے۔ اس مضمون میں ہم ان چیلنجز کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کررہے ہیں۔
پاکستانی معیشت ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں ایک طرف اس میں زبردست ترقی کا رجحان ہے تو دوسری جانب اسے حکومت کی ناقص پالیسیوں کیوجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پہلے ہم معیشت کی مثبت باتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ معاشی ترقی کے حوالے سے حال میں جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق قومی آمدنی میں گروتھ ریٹ 58 فیصد رہا جو دس سالوں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
اس کے ساتھ افراط زر(inflation) کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم رہی ہے جو کئی سالوں سے اسی سطح پر رہی ہے۔ معاشی ترقی اور قیمتوں کا استحکام ایک ایسی جوڑی ہے جو کسی بھی معیشت کے استحکام اور پائیداری کی ضمانت ہے۔ پھر یہ ترقی سارے شعبوں کی شرکت سے ہوئی ہے، جس میں زراعت، صنعت اور خدمات شامل ہیں۔ سرمایہ کاری کا عمل تیز ہورہا ہے، خصوصاً سی پیک کے حوالے سے۔ صارفین کی طلب بڑھ رہی ہے اور وہ اشیاء اور خدمات کو خوب خرید رہے ہیں جو مزید پیداوار اور سرمایہ کاری کا باعث ہوگی۔
اب ایک طرف یہ مثبت تبدیلیاں ہورہی ہیں اور دوسری جانب حکومت کی معاشی پالیسیاں مددگارہونے کے بجائے اس عمل کو سخت خطرات سے دوچار کیے دی رہی ہیں۔ سب سے پہلے ہم بجٹ کا ذکر کرینگے جہاں سے درحقیقت ساری خرابیوں کا آغازہوتا ہے۔ حکومت نے 2013-16 کے عرصے میں آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت بجٹ کے خسارے کو مجموعی قومی آمدنی (GDP) کا 82 فیصد سے کم کرکے 43 فیصد کردیا تھا۔ لیکن پروگرام کے خاتمے کے بعد یہ خسارہ 2016-17 میں 58 فیصد تک بڑھ گیا۔ درحقیقت خسارہ اس سے بھی کہیں زیادہ تھا (تقریباً 7 فیصد) لیکن کچھ ایک دفعہ آنے والی آمدنیوں کو شامل کرنے کی وجہ سے یہ اس سطح پر آگیا۔ اس سال 2017-18 کے بجٹ میں خسارے کا اندازہ 41 فیصد رکھا گیا تھا۔
آئندہ سال کے بجٹ کے موقع پر پیش کیے گئے نظرثانی شدہ اندازے کے مطابق اسے 55 فیصد بتایا گیا ہے۔ بعد ازاں وزارت خزانہ نے پہلے نو ماہ کے اندر بجٹ کی صورتحال کا جائزہ پیش کردیا ہے۔ اسکے مطابق نو ماہ میں خسارہ 43 فیصد ہوگیا ہے۔ اگرہم اس متذکرہ مقدار سے پورے سال کے خسارے کا اندازہ لگائیں تو سال کا اختتام 58 فیصد پر ہوگا۔ لیکن ہمارے سامنے کئی وجوہات ہیں جو اس بات کا اشارہ کررہی ہیں کہ خسارہ اس سے زیادہ ہوگا۔
پہلے ہم آمدنی کی بات کرتے ہیں۔ باوجود ٹیکس وصولیوں کی کارکردگی سال گزشتہ کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، لیکن وہ بجٹ ٹارگٹ سے کم ہے اور اس میں آئندہ دنوں میں شائد اور کمی واقع ہو۔ لیکن زیادہ پریشان کن صورتحال غیر ٹیکس وصولیاں ہیں جن میں بڑی کمی واقع ہورہی ہے۔ گیس سیس کی آمدنی بجٹ میں 100 ارب روپے رکھی گئی تھی مگر پہلے نو ماہ تک اس مد میں 10 ارب روپے بھی وصول نہیں ہوئے تھے ۔ دیگر ذرائع میں بھی تشویشناک حد تک کمی ہے۔
دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ صوبوں سے 300 ارب روپے سرپلس کی توقع پوری ہوتی نظر نہیں آتی، جو قابل فہم ہے کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی صوبائی حکومتیں خزانہ خالی کرکے جائیں گی۔
تیسرے ہم دیکھتے ہیں کہ آخری سال میں خود وفاقی حکومت بے دریغ ترقیاتی اخراجات کررہی ہے۔ پہلے نو ماہ میں اس مد میں 1052 ارب روپے خرچ ہوگئے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے انتخابی سال میں سیاستدان اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
چوتھے، حکومت نے درآمد کنندگان کےلئے ترغیبات کا اعلان کررکھا ہے لیکن اس کیلئے بجٹ میں وسائل نہیں مہیا کیے گئے تھے، لہذا یہ ادائیگیاں اضافی ہیں اور اخراجات میں مزید اضافہ کا باعث ہونگی۔ ان وجوہات کیوجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ بجٹ کا خسارہ اس سال بھی 7 فیصد کے اطراف میں ہوگا۔
اس پالیسی کا اصل شاخسانہ ہمیں بیرونی ادائیگیوں کے توازن (balance of payments) میں نظر آتا ہے۔ جن دو سالوں میں بجٹ خسارے میں غیر معمولی اضافہ کا ذکرہم نے کیا ہے انہی دو سالوں میں بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ تقریباً ایک فیصد سے بڑھ کر 2016-17 میں چار فیصد اور اس سال اندیشہ ہے کہ یہ 6 فیصد تک ہوجائیگا۔ ان دو خساروں کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مقامی طور قرض حاصل کرکے یا مزید کرنسی چھاپ کر خسارے کی کسی بھی مقدار کو ختم کرلے، گو اس میں بھی کچھ حدود آڑے آتی ہیں۔ لیکن یہ قدرت بااختیار وہاں کام نہیں آتا جب بیرونی خسارے کا سامنا ہوتا ہے۔
بجٹ کا خسارہ جلد ہی بیرونی خسارے میں بدل جاتا ہے کیونکہ براہ راست یا بالواسط خسارے سے پیدا کی گئی طلب ،ان اشیا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے جو کہ ملک میں درآمد کی جاتی ہیں اور یوں یہ طلب بیرونی خسارے کا باعث بنتی ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے زرمبادلہ کی موجودگی لازمی ہے۔ فنڈ کے پروگرام کے دوران ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے 24 ارب ڈالر تک کی تاریخی حد کو پہنچ گئے تھے، جس میں سے سرکاری ذخائر 20 ارب ڈالر تھے۔ بدقسمتی سے یہ سرکاری ذخائر گر کے ساڑھے دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس عرصے میں ہم نے کوئی 13 ارب ڈالر کے قرضے بھی حاصل کیے ہیں جو بیرونی خسارے کو پورا کرنے میں استعمال ہوئے ہیں۔ مزید براں ہم نے اپنی شرح تبادلہ کو بھی دو بار گرایا ہے، لیکن درآمدات کی طلب میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس طرز عمل پر چلتے ہوئے ہم کچھ اور دنوں تک موجودہ ذخائر سے کام چلاسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ جبراً منقطع ہوجائیگا۔
ملک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حکومت نے معیشت کو چلانے میں کسی مثالی طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ بے لگام بجٹ کا خسارہ بالآخر اپنی تمام تر خرابیوں کیساتھ ملک کی بصورت دیگر پھلتی پھولتی معیشت کو ضرب کاری لگانے والا ہے۔ شاہ خرچیوں میں بیدردی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے تمام وفاقی ملازمین کو تین تنخواہیں مفت میں دے دی ہیں جو جدائی کا تحفہ ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے حکومت نے ٹیکس کی ناقابل یقین چھوٹ کا اعلان کیا تھا جس کا خرچہ سو دیڑھ سو ارب کا تھا۔ اب یہ خرچہ بھی سو ارب روپے سے کم کا نہیں ہے۔ کچھ ایسی خبریں صوبائی حکومتوں سے بھی موصول ہورہی ہیں۔ پہلے ہی بگڑے ہوئے مالیاتی ڈسپلن کو مزید بگاڑنے کا یہ قدم صرف وہ حکومت اٹھاسکتی ہے جس کے دل میں معیشت کی بگڑتی صورتحال پر ذرہ برابر بھی درد نہ ہو۔
اس تناظر میں نئی حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس فوری طور پر مدد کی درخواست لے کر جائے۔ ماضی کی کارکردگی کے پیش نظر اگر فنڈ نیا پروگرام دینے پر راضی ہوگا تو وہ سخت شرائط عائد کریگا، جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوگا، افراط زر میں اضافہ ہوگا، مارک اپ کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا، بجٹ خسارے میں بڑی کمی لانی ہوگی اور شرح تبادلہ میں بھی سخت ردوبدل کرنا پڑیگا۔ یہ نتائج، جو ہمارے عوام کیلئے سخت مشکلات کا باعث ہونگے، ہماری آج کی جانیوالی خطاو¿ں کا حاصل ہونگے۔