مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک
موجودہ قومی اسمبلی آج سے 4روز بعد اپنی آئینی مدت مکمل کرکے خود بخود تحلیل ہوجائیگی اسکے ساتھ ہی مسلم لیگ )ن) کی حکومت بھی ختم ہو جائیگی پچھلے پانچ سال کے دوران ہر سال کو ’’انتخابات کا سال ‘‘ قرار دینے والوں کو جولائی2018ء کے انتخابات میں مجبوراً حصہ لینا پڑیگا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو میاں نواز شریف کو ’’نا اہل ‘‘قرار دلوا کر اقتدرار سے نکلوانے کے سوا کوئی کامیابی نہیں ملی ۔پچھلے 10ماہ کے دوران جس طرح میاں نواز شریف اوران کے خاندان کے دیگر افراد کو ’’نام نہاد ‘‘ احتساب کی چکی میں پیسا جارہا ہے سیاسی تارخ میں اس کی مثال نہیں ملتی بظاہر ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہے لیکن اس کو غیر موثر بنانے کیلئے متوازی حکومت کام کررہی ہے جس طرح مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو ’’ہانک‘‘ کر ’’کپتان‘‘ کے زیر سایہ بھجوایا جا رہا ہے اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے سکرپٹ کے مطابق کہ ’’ایسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ’’آشیرباد‘‘ سے ہی حکومت بنے گی تحریک انصاف اس حد خوش فہمی کا شکا ہو گئی ہے کہ اس نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کی ترجیحات کا اعلا ن کر دیا ہے حالانکہ عام انتخابات سے قبل بین الاقوامی شہرت کے حامل ’’گیلپ سروے‘‘ کرنیوالے ادارے اپنے انتخابی تجزیوں اور جائزوں میں کچھ اور ہی بتا رہے ہیں بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے کسی سیاسی ’’ترغیب اور مداخلت‘‘ کو بالائے طاق رکھ کر نتائج مرتب کرتے ہیں اور اپنی ’’کریڈیبلٹی‘‘ پر کوئی حرف نہیں آنے دیتے۔ ممکن ہے کچھ ادارے ایسے بھی ہوں جو محض سیاسی جماعتوں کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر نتائج مرتب کرتے ہیں لیکن اس وقت گیلپ آف پاکستان ، انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن ریسرچ(آئی پی او آر)، یو این ڈی پی آئی ، پلس کنسلٹنگ اور اے نیلسن کام کر رہے ہیں۔ گیلپ آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا شمار ملک کے مستند تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے جو پچھلے کئی سال سے اسی پیشہ سے منسلک ہیں ان کی سروے رپورٹس پر ان کے ناقد بھی انگلی نہیں اٹھاتے ۔ ماضی میں جاری ہونے والے ان کے تجزیوں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سند حاصل رہی ہے۔ دو ماہ قبل انھوں نے جو ملک گیر سروے کرایا ہے اسکے مطابق چونکا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں ممکن ہے یہ نتائج کچھ جماعتوں کو قبول نہ ہوں لیکن بین الاقومی پیمانے پر کئے گئے سروے کے نتائج کی صداقت سے انکار کرنا مشکل ہے راقم السطور نے متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری جنرل سے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے تازہ ترین انتخابی سروے کا ذکر کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اپنے 4گھنٹے کے لیکچر میں ان نتائج پر روشنی ڈالی تھی لیاقت بلوچ کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر اپنی مستقبل کی سیاست کے تانے بانے بنتے ہیں انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا جس طرح ملکی سیاست میں کھلم کھلا مداخلت ہو رہی ہے وہ کسی ڈھکی سے چھپی بات نہیں آنیوالے دنوں میں پورا ملک ’’پرو ایسٹیبلشمنٹ‘‘ اور’’ اینٹی ایسٹیبلشمنٹ ‘‘ کیمپ میں منقسم ہو جائے گا ۔ گیلپ نے پنجاب کے ووٹرز کے بارے میں دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ 1970 سے لے کر اب تک کے انتخابی نتائج کے مطابق پنجاب کا ووٹر ایسٹبلشمنٹ کے سامنے کھڑا رہا ہے اور سر نہیں جھکایا۔ اب کی بار بھی انہیں نظر آرہا ہے پنجاب کا ووٹر کھڑا ہو گیا ہے وہ دبائو کے سامنے نہیں جھکے گا۔ پنجاب کے ووٹر کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھیڑ چال کے تحت ووٹ دیتا ہے لیکن ایسا نہیں ۔ پچھلے 70 سال کے دوران مسلم لیگ کا ووٹ بینک، جو کبھی منتشر تھا، اب مسلم لیگ ن نام کی جماعت میں مجتمع ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایاکہ’’ نواز شریف کیلئے سیاسی موسم گرم سرد ہونے کے باوجود، ووٹرز ٹرینڈمیںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مسلم لیگ ن سے پرواز کرنیوالے موسمی پرندوں کی ’’اڑان‘‘ دیکھ کر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس ’’الیکٹیبل ‘‘کا ’’جمگھٹا‘‘ لگ گیا ہے اس سے ممکن ہے اس کی نشستوں میں کچھ اضافہ ہو جائے لیکن ’’گیلپ سروے‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ ملک میں پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں کا عام انتخابات میں برا حال ہو گا۔ آزاد امیدواروں کو جماعتی سسٹم میں انتخاب لڑنے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو نا اہلی کے بعد عوام سے رجوع کرنے سے بے پناہ رسپانس ملا ہے۔ وہ پچھلے سات آٹھ ماہ سے ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ جہاں وہ ایک طرف عوام کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ کھڑا ہونے کی تلقین کر رہے ہیں وہاں وہ جارحانہ انداز میں عمران خان اور آصف علی زرداری کو بھی للکار رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی جلسوں سے خطاب کر رہی ہیں۔ انھوں نے عملاً مریم نواز کو اپنا ’’ سیاسی جانشین ‘‘بنا دیا ہے لیکن زمینی حقائق کی وجہ سے انھوں نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف، جنہوں نے جدید پنجاب کی بنیاد رکھی ہے، کو پارٹی کا صدر بنایا ہے، وہ بھی ملک کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اور پچھلے پانچ سال میں شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر ایک ایک دن میں دو سے تین تین منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ سرِ دست مسلم لیگ ن سے بے وفائی کرنے والے ارکان کی وجہ سے پنڈال خالی نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن میں تیزی سے آنے والے دوسرے لوگوں نے انکی جگہ لے لی ہے ۔ گیلپ سروے کے مطابق دو جماعتوںکا ووٹ بینک بڑھا ہے۔
ایک مسلم لیگ ن اور دوسری تحریک انصاف۔ نوجوان نسل کے ووٹوں کے اندراج کے بعد تحریک انصاف کا ووٹ بینک مسلم لیگ ن کے مقابلے میں زیادہ بڑھا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان پایا جانے والا بڑا فرق تحریک انصاف کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں شخصی مقبولیت اور الیکٹیبلٹی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق ’’جبر ‘‘ کے ماحول میں بھی نواز شریف اور شہباز شریف کا گراف نیچے کی طرف نہیں آیا۔ حیران کن بات یہ ہے دونوں کا گراف یکساں ہے۔
تمام تر صورتحال کے باوجود اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف کی مقبولیت کا گراف 50 فیصد پر کھڑا ہے جبکہ عمران خان اب بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق اگر نواز شریف کو جیل ہو گئی یا وہ کسی وجہ سے عام انتخابات میں اپنی کوئی کنٹری بیوشن نہ دے سکے تو انکی مقبولیت کا فائدہ کوئی اور جماعت نہیں اٹھا سکے گی۔ اس کا فائدہ صرف شہباز شریف کو ہی ملے گا۔ ملک میں پارٹی سسٹم اس حد تک مضبوط ہو گیا ہے کہ اس میں چند ایک کے استثناٰٰ کے علاوہ آزاد امیدواروں کو انتخاب لڑنے کا ایڈونچر مہنگا پڑیگا۔ گیلپ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا گراف علی الترتیب 38 اور 25 فیصد کے پاس ہی رہے گا۔ 38 میں دو چار کی کمی آ سکتی ہے اور 25 میں دو چار کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جب تک مرکز کی حد تک تمام اینٹی مسلم لیگ جماعتیں یکجا ہو کر میاں نواز شریف کا مقابلہ نہیں کرتیں اس وقت تک وہ مسلم لیگ ن کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ مسلم لیگ ن کوتمام سیاسی جماعتوں پر سبقت حاصل رہے گی۔ اگر پنجاب میں کوئی بڑا اتحاد نہ بن سکا تو پھر بھی مسلم لیگ ن ہی پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔ پنجاب پاور بیس ہے ۔ جب تک کوئی جماعت ’’پاور بیس‘‘ پر قبضہ نہیں کرتی، اس وقت تک وہ پنجاب اور نہ ہی مرکز میں حکومت بنا سکتی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کے بارے میں بھی دلچسپ انکشاف ہوا ہے ملکی سیاست میں بہت بڑی قوت رکھنے والا ووٹ بینک آسمان سے زمین پر آ گیا ہے۔ مذہبی جماعتیں عام انتخابات میں کوئی چونکا دینے والے نتائج حاصل کر پائیں گی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں ان کے پاس 2002 کی طرح نشستیں ہونگی۔ خیبر پختونخواہ کے بارے میں مختلف دعوے کئے جا رہے ہیں۔ تاہم کے پی کے میں 2018 کے انتخابی نتائج میں کسی اپ سیٹ کا امکان نہیں۔ کے پی کے میں 2013ء کا رجحان ہی 2018 میں نظر آئے گا۔