اتوار‘ 11 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 27 مئی 2018ء
عمران خان نے تھپڑ مارنے کی تعریف نہیں کی: نعیم الحق نے بیان بدل لیا
پہلے توجب نعیم الحق یدھ بھومی(میدان جنگ) سے واپس آئے تو بڑے فخر سے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میرے قائد عمران خان نے دانیال عزیز کو تھپڑ مارنے پر مسرت کا اظہار کیا اور میری تعریف کی ہے۔ گویا خان صاحب نے اس فعل جارحانہ پر اپنی مہر پسندیدگی ثبت کر کے اسے اپنی طرف سے قبولیت کا سہرا بخشا ہے۔ مگر جب عوامی رد عمل میں اس تھپڑ کے برے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ عوام الناس سے لے کر خواص تک سب نے اس پر افسوس کا اظہا ر کیا اور اسے بدترین حرکت قرار دیا تو رات کو بھولے مسافروں کو بھی ہوش آ گیا۔ اب نعیم الحق صاحب نے اپنے فاتحانہ اعلان سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے یکدم یوٹرن لے لیا ہے۔ کہاں وہ جیت کا نشہ کہاں یہ وضاحتیں کبھی اسے بھول چوک کہہ رہے ہیں کبھی غیر ارادی حرکت۔ کیا اس قسم کی غیر ارادی حرکت وہ باقی محفلوں اور مجلسوں میں بھی کرتے ہیں۔ یعنی وہ ہتھ چھٹ ہیں۔ اب کہتے ہیں نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑا اس سے بھی برا کیا۔ سو اب نعیم الحق صاحب اپنے حملے کے دفاع میں لاکھ تاویلیں پیش کریں۔ کون تسلیم کرے گا جنہوں نے یہ سب کچھ دیکھا وہ تو کبھی اسے اچانک یا مخو لیا حرکت قرار نہیں دیں گے یہ تو دلیل کے جواب میں دلیل نہ ہونے پر جارحانہ حملہ ہی قرار پائے گا۔ اب بات بدلنے سے کیا فرق پڑے گا۔ اب پچھتانا کیسا جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔
٭....٭....٭....٭
مری میں صوبائی وزیر کی گاڑی پر مشتعل افراد کا حملہ شیشے توڑ دئیے
آدمی جہاں جاتا ہے موقع محل دیکھ کر ہی جاتا ہے۔ اب راجہ اشفاق سرور کو 5 سال بعد اگر اچانک اپنے حلقہ ¿ انتخاب کی یاد آ ہی گئی تھی تو وہ جانے سے پہلے اپنے حلقے کی رائے عامہ کے جذبات کا بھی تو خیال رکھتے جو پانچ سال بعد اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر بے قابو بھی ہو سکتے ہیں۔ پہلے کی بات اور تھی تب مری پر سیاحوں کی یلغار رہتی تھی وہاں لوگ روزگار میں مصروف ہونے کی وجہ سے قابو میں رہتے تھے۔ اب جب سے مری بائیکاٹ مہم چلی ہے تو مری میں الوبول رہے ہیں۔ دن کو بھی وہاں سے گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے انگریزی خوفناک فلموں والا سناٹا جان کو کھانے دوڑتا ہے۔ خالی سڑکیں دکانیں ہوٹل ریسٹ ہاﺅس ہر طرف بھاںبھاں کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرنے بیٹھے ہیں کوئی سیاح ان کے ہاتھ نہیں چڑھا تو راجہ صاحب قابو آگئے لوگ تو پہلے ہی مشتعل تھے۔ اب جونہی راجہ صاحب مری اپنے حلقہ نیابت میں نظر آئے لوگوں نے سیاحوں کا غصہ ان پر نکالا۔ شکر ہے ان کی جان بچ گئی۔ صرف گاڑی کے شیشے ٹوٹے یہ ان تمام وزرائ، مشیروں اور ارکان اسمبلی کے لئے وارننگ ہے، جو عوام کو5برس بھولے رہے۔ اب اگر باقی لوگ بھی جاگ اٹھے تو ہمارے ان نمائندوں کو اپنے حلقوں میں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔
1977ءاور 2013ءوالا الیکشن ڈرامہ نہیں ہونا چاہئے: چودھری شجاعت
ابھی تک تو حکومت اور اپوزیشن والے نگران وزیراعظم کے نام پر راضی نہیں ہو سکے۔ چودھری صاحب کو وکھری الیکشن کی فکر پڑ گئی ہے۔ پہلے نگراں وزیراعظم اور ان کی عبوری حکومت کا مرحلہ شوق تو دعا کریں جلد طے ہو سکے۔ پھر الیکشن بھی آئیں گے جس میں شرکت کے لئے چودھری صاحب سمیت ہزاروں لوگ پرتول رہے ہیں یا مول تول کر رہے ہیں جس کا مول زیادہ ہو گا وہی ٹکٹ سے تولا جائے گا۔ فی الحال تو اس راہ طلب میں کئی غیرمرئی مشکلات حائل ہیں۔ یہ طے ہو گا تو آگے کی بات بڑے گی۔ الیکشن جب بھی ہوں گے جو بھی کرائے گا۔ ہارنے والے اسے ہمیشہ اسے ڈرامہ ہی قرار دیتے ہیں۔ اس بات کی گواہ ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ 2018ءمیں جو الیکشن ہونے ہیں ان کے بعد بھی یہی ڈرامہ ایک بار پھر شروع ہو گا۔ عبوری حکومت کا تڑکا بھی اس بے مزہ پکوان میں مزے کی تاثیر پیدا نہیں کر سکا۔ اور ہر الیکشن کے نتائج ہارنے والوں کے لئے بے مزہ ہوتے ہیں۔ ان ساری باتوں سے ہٹ کر جو بات عوام جانتے ہیں اور خود چودھری صاحب بھی وہ یہ ہے کہ الیکشن خواہ کتنے بھی آزادانہ اورشفاف کیوں ہوں ق لیگ کا جیتنا اب ممکن نہیں اس لئے چودھری صاحب بھی اس بارے میں اتنا فکر مند نہ ہوا کریں ”مٹی پاﺅ انہاں گلا ںتے“
٭....٭....٭....٭
لاہور میں دو پولیس والوں نے میاں بیوی کو اغواءکر کے 10 لاکھ بھتہ وصول کیا
محکمہ پولیس کی تعریف میں کوئی کتنا ہی رطب اللسان کیوں نہ ہو۔ ان کی حرکات سے سارے کئے کرائے پرپانی پھر جاتا ہے۔ بات صرف کسی ایک صوبے کی پولیس کی نہیں پورے ملک میں یہی پولیس کلچر رائج ہے۔ کوئی لاکھ اس کلچر میں تبدیلی کے دعوے کرے وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہی کہلاتے ہیں۔ اب لاہور پولیس کے ان دو اہلکاروں کے ذہن رستہ خیز کی داد ہی دینا پڑے گی جنہوں نے میاں بیوی کو خود غائب کیا اور بعد ازاں اغواءبرائے تاوان کا ڈرامہ رچایا جس کے صلے میں 10یا 20 لاکھ روپے بھی خود ہی وصول کرکے میاں بیوی کو چھوڑ دیا۔
جب قانون نافذ کرنے والے ہی قانون کی دھجیاں اڑائیں تو غیر قانونی کام کرنے والے کیوں پیچھے رہیں گے۔ اب یہ سکینڈل عام ہوا تو یہ پولیس والے معافیاں مانگتے پھرتے ہیں۔ رقم بھی واپس کرنے کو تیار ہیں ۔ ایسے کرمنلز کو تو چھوٹ ملنی ہی نہیں چاہئے۔ کیا پولیس میں بھرتی کے وقت کس کے ماضی کا ریکارڈ چیک نہیں کیا جاتا۔ جو خود لٹیرا ہو وہ بھلا لوگوں کو کسی اور کی لوٹ مار سے کیا بچائے گا بلکہ وہ تو وردی کی آڑ میں اپنی دکانداری بھی چمکائے گا۔ اس واقعہ نے لاہور کے اعلیٰ کارکردگی پر انعام پانے والے افسران کی چمک دمک والی کارکردگی بھی گہنا دی ہے۔