ماہ ِ رمضان المبارک میں گراں فروشی کا عروج
لاہور میں 9 ویں روز بھی سبزیوں اور پھلوں کی گراں فروشی عروج پر رہی۔ پھل اور سبزیاں مارکیٹ کمیٹی کی پرائس لسٹ میں درج قیمتوں سے 55 روپے سے بھی زائد فروخت ہوتی رہیں۔ یہ اشیا، مہنگی ہی نہیں ناقص بھی ہیں۔
لاہور کی طرح ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سبزی وپھل فروش ناجائز منافع خوری کی انتہاءکئے ہوئے ہیں اور وہ صارفین اور روزہ داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، اور ملاوٹ، ہماری گھٹی میں ڈال دی گئی ہے۔ یہ بھی ہماری خوش فہمی ہے کہ انتظامیہ کے افسران روزانہ کی بنیاد پر خود جا کر کھانے پینے کے معیار اور اُنکے نرخوں کی جانچ پڑتال کر لیں تو شائد یہ اندھیر نگری ختم ہو جائے۔یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جب ناجائز منافع خوری کی حرص کی کوئی انتہا نہ رہے تو پھر عام آدمی کی بہتری کی خاطر قانون کا شکنجہ کسنے سے ہی اصلاح احوال ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کھیت یا پھل کے باغ سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ ٹرانسپورٹر، آڑھتی، کمشن ایجنٹ اور تھڑیے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور رہی سہی کسر دکاندار پوری کر دیتے ہیں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پھل اور سبزیاں، جائز اور مناسب قیمت پر فروخت ہوں تو ہمیں مذکورہ درمیانی کڑیوں کی بھی خبر لینا ہوگی۔ گراں فروشی کے ضمن میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ فروٹ چاٹ میں استعمال ہونےوالے بعض پھل مثلاً آڑو، آم، انگور وغیرہ پیسے کے لالچ میں درختوں سے کچے ہی نوچے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے کچے پھل نہ صرف مضر صحت ہیں، بلکہ آگے چل کر انکی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے، حکام کو اس ساری صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔