سٹیٹ بنک اور عالمی بنک کی چشم کشا رپورٹیں
شرح سود میں نصف فی صد اضافہ ، مالی خسارہ بڑھ گیا۔ مہنگائی بھی بڑھے گی۔میکرو اکنامک صورتحال کا قلیل مدتی استحکام پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ مالی خسارہ 4.1سے بڑھ کر 5.5 فیصد ہوگیا، سٹیٹ بنک کی نئی مانیٹری پالیسی کا اجرائ۔ 80 فیصد سے زائد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے کم ہے۔ غذائی افراط زر سے 80 فیصد شہری متاثر ہوتے ہیں ۔ مہنگائی میں غیر معمولی اضافے سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے: عالمی بنک کی رپورٹ
اس وقت ملک کو سیاسی عدم استحکام ، دہشت گردی کےخلاف جنگ اور ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے جس کساد بازاری، معاشی بدحالی اور مہنگائی کا سامنا ہے اس سے سب سے زیادہ غریب عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی کے اجرا کے ساتھ خبردار کر دیا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے مالی خسارہ بڑھے گا اور اگلے مالی سال کےلئے شرح نمو جو 6.2 مقرر ہے اس ہدف کا حصول مشکل ہو جائےگا۔ پاکستان کی معیشت کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے سلسلے میںبھی سخت دباﺅ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے معاشی صورتحال مزید دھماکہ خیز ہوگئی ہے۔ اب خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے بھی مہنگائی کا طوفان ہمارے سامنے ہے۔ عالمی بنک کی جاری کردہ رپورٹ میں بھی ہمارے لئے خیر کی کوئی خبر نظر نہیں آتی جس کے مطابق 80 فی صد سے زیادہ پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے بھی کم ہے۔ یہ رپورٹ انتہائی افسوس ناک صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ غریب لوگ اپنی روزانہ آمدنی کا 80فی صد حصہ اپنی خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں جس کے بعد انکے پاس صحت ، تعلیم ودیگر اخراجات کے لئے کچھ نہیں بچتا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اور انکی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ مہنگائی کا سب سے بڑا شکار بھی یہی 80فی صد لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر یہی معاشی صورتحال جاری رہی تو پھر ملک میں بے رحم انقلاب کی راہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ حالات اسی نہج کی طرف جا رہے ہیں ہمارے معاشی ماہرین اور حکومتوں کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ 80 فی صد عوام کے وسائل اور ذرائع آمدنی میں بہتری لانا ہوگی۔ اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ خطرناک صورتحال کسی بھی وقت سب کچھ تہہ و بالا کردے گی۔