ملکی اور قومی مفادات کا سودا کرنیوالے کسی رو رعایت کے مستحق نہیں
اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی اور نوازشریف کا سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا تقاضا
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسددرانی کی کتاب میں کئے گئے انکشافات پر قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا تقاضا کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایسا ایشو ہے جس پر بات ہونی چاہیے۔ گزشتہ روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک وقت میں تین حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ ہم دوبارہ اقتدار میں آئے تو ملکی سانحات پر قومی کمیشن بنائیں گے۔ انکے بقول پرویز مشرف کا ٹرائل ایک نہ ایک دن حتمی انجام تک پہنچنا ہے اور کوئی قانون اس ٹرائل کو نہیں روک سکتا۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ اسددرانی کی کتاب میں درج بعض واقعات پر پاک فوج کو تحفظات ہیں۔ ان سے وضاحت طلب کی جائیگی کہ انہوں نے حقائق کے برعکس واقعات اپنی کتاب میں کیوں درج کئے۔ انکے بقول اسد درانی کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر وضاحت پیش کرنا ہوگی۔ اس مقصد کیلئے انہیں 28 مئی کو جی ایچ کیو میں طلب کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوڈ آف کنڈکٹ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اسد درانی کی کتاب ”سپائی کرانیکلز“ کے مندرجات قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں اور اسے ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کتاب میں بہت سے موضوعات حقائق کے برعکس بیان کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ کوئی سابق فوجی افسر بھی ملکی مفاد کیخلاف بات کرے تو اس کیخلاف بھی ایکشن ہوگا۔ اسی طرح سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے سے متعلق اسددرانی کے اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ کتاب کسی عام شہری یا پاکستانی سیاست دان نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور نہ صرف غداری کے فتوے لگ رہے ہوتے بلکہ اس کیخلاف پورے ملک میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اسددرانی نے اپنے ادارے کو اس امر سے آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر کتاب لکھ رہے ہیں اور کیا انہوں نے وفاقی حکومت یا وزارت دفاع کو اس سے آگاہ کیا تھا۔ اس حوالے سے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بھی وزارت خارجہ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ انہوں نے شکیل آفریدی‘ کرنل جوزف اور کشن گنگا ڈیم کے بارے میں بھی جواب طلب کیا۔
اس وقت جبکہ ممبئی حملوں میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ملوث ہونے کے بارے میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیان پر مختلف پیرائے میں تبصروں اور ردعمل کا سلسلہ جاری ہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی عین اس موقع پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسددرانی اور بھارتی ”را“ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے وقتاً فوقتاً ہونیوالے مکالموں پر مبنی کتاب کا منظر عام پر آنا بادی النظر میں بھارت کو پاکستان کیخلاف اسکے موقف کو تقویت پہنچانے کی کوشش ہی نظر آتی ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے منصب کے دوران ہونیوالے بعض ایسے معاملات کے بارے میں انکشافات کررہے ہیں جو قومی رازوں کے زمرے میں آتے ہیں اور اپنے اٹھائے گئے حلف کی بنیاد پر وہ کوئی قومی راز افشا کرنے کے مجاز نہیں جبکہ اب سابق آئی ایس آئی چیف نے بھی اسی نوعیت کے قومی رازوں سے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر ایک کتاب کی صورت میں پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے حالانکہ پاک فوج کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت وہ اپنے طور پر بھی قومی رازوں پر مبنی کوئی کتاب منظر عام پر لانے کے مجاز نہیں‘ چہ جائیکہ وہ ایسی جرا¿ت کا مظاہرہ دشمن ملک کی ایجنسی ”را“ کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کریں جبکہ انکے بیان کئے گئے واقعات سے پاک فوج کی ساکھ پر بھی حرف آتا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک کے عسکری ادارے کے ایسے معاملات دنیا کے سامنے لائے جارہے ہیں جس سے اسکے تشخص‘ وقار اور پیشہ ورانہ مہارت پر زد پڑ سکتی ہو۔ میاں نوازشریف نے جنرل مشرف کیخلاف غداری کے مقدمہ کے حوالے سے مبینہ طور پر عسکری ادارے کی جانب سے خود پڑنے والے دباﺅ کے بارے میں انکشافات کئے ہیں تو جنرل (ر) درانی نے اپنی اور اے ایس دلت کی مشترکہ کتاب میں اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد اپریشن کے حوالے سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے امریکی حکام کے ساتھ معاملات طے پانے کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کتاب کا حصہ بنائی ہیں جس سے عساکر پاکستان کی عزت اور وقار داﺅ پر لگ سکتا ہے جبکہ اپنے بھارتی ہم منصب کےساتھ مل کر پاکستان کے سکیورٹی کے معاملات پر کتاب لکھنا بھی بھارتی موقف کو ہی تقویت پہنچانے کی حکمت عملی ہے اسلئے اس سنگین معاملہ کا مکمل کھوج لگا کر تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ جنرل درانی نے اس کتاب کے ذریعہ درحقیقت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کا یہ اقدام ان کیخلاف کورٹ مارشل کا بھی متقاضی ہے۔
ہمارے لئے اس سے زیادہ کربناک اور کیا صورتحال ہو گی کہ متذکرہ کتاب کی رونمائی بھی نئی دہلی میں ایک تقریب کے ذریعے کرائی گئی جس میں سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیاتھا۔ اسی طرح بھارت کے سابق نائب وزیراعظم حامد انصاری بھی اس تقریب رونمائی میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جبکہ اس تقریب میں سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنگھ سنہا اور سابق مشیر قومی سلامتی شوشنکر مینن نے پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے اپنے اپنے نکتہ نظر سے گفتگو کی اور کتاب کے معاون مصنف اے ایس دلت نے اپنی تقریر میں توقع ظاہر کی کہ آئندہ سال بھارتی انتخابات سے قبل پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اسددرانی بھارتی ویزہ نہ ملنے کے باعث خود اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے دہلی نہیں پہنچ سکے تاہم انکی کتاب سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے معاملہ میں ایک نیا پنڈورابکس ضرور کھل گیا ہے جس سے بادی النظر میں بھارتی موقف کو تقویت پہنچنے کا امکان ہے اسلئے پاکستان بھارت جاری سرحدی کشیدگی اور اس کیلئے بھارتی سازشوں کے بچھائے جانیوالے جال کے مراحل میں ملک کی عسکری قیادتوں کے کردار کے معاملات ایک کتاب کی شکل میں سامنے لانا بادی النظر میں عساکر پاکستان کو ”ڈی موریلائز“ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس تناظر میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا تقاضا کیا ہے اور ساتھ ہی سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف ٹرائل بھی انجام تک پہنچانے کا تقاضا کیا ہے تو ملکی و قومی مفادات کے تناظر میں ایسے تمام معاملات کا مجاز فورمز پر لایا جانا ضروری ہے تاکہ آئندہ کسی کو ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی جرا¿ت نہ ہوسکے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول ملک کی عسکری قیادت اس بارے میں مکمل پرعزم ہے کہ کسی سابق فوجی کو بھی ملکی مفاد کیخلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسی بات کرنیوالے کیخلاف ایکشن ہوگا تو لگے ہاتھوں اب جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ بھی حساب کتاب کرلیا جائے جنہوں نے دو روز قبل ہی یہ بیان دے کر ملکی اور قومی مفادات سے کھلواڑ کی کوشش کی ہے کہ وہ اقتدار میں ہوتے تو امریکہ سے معاملہ طے کرکے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کو اسکے حوالے کر دیتے۔ مشرف اپنے دور اقتدار میں بلاشبہ ایسے ننگ وطن کارنامے ہی سرانجام دیتے رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے سینکڑوں افراد کو لاپتہ کراکے امریکہ کے حوالے کیا اور اسکے عوض ڈالر وصول کئے اس لئے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی امریکہ کو مخبری کرنیوالے ڈاکٹر شکیل کے اس فعل کے وقت مشرف برسراقتدار ہوتے تو یقیناً وہ امریکہ کے ساتھ اس کا بھی سودا کرلیتے۔
ایسے معاملات سے ہی عساکر پاکستان کی عزت و وقار اور ساکھ پر حرف آتا ہے اس لئے اس معاملہ میں جنرل (ر) اسددرانی کو وضاحت کیلئے جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے اور ان کیخلاف فوجی کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے تو اسی بنیاد پر جنرل (ر) مشرف کیخلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے جنہوں نے ایک سابق آرمی چیف کی حیثیت سے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا عندیہ دے کر ملک کے عسکری ادارے کے وقار کو ہی ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس بارے میں سابق چیئرمین سینٹ رضاربانی کا یہ کہنا درست نظر آتا ہے کہ جنرل درانی جیسا کارنامہ کسی سیاست دان نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر کیا ہوتا تو اس پر نہ صرف غداری کے فتوے لگ چکے ہوتے بلکہ اس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہوتا۔ اس تناظر میں ملک کی سول اور عسکری قیادت اور متعلقہ سول اور عسکری اداروں کو اپنی اپنی سطح پر جنرل درانی اور جنرل مشرف کے معاملات کا کھوج لگانا اور ان کیخلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لانا چاہیے۔ ملک کے دشمن بھارت کے پاکستان مخالف موقف کو تقویت پہنچانے سے بڑا جرم بہرحال اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر ملک کے سول اور عسکری اداروں کی جانب سے ایسے معاملات کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو اسے بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔