ہیٹ وویوز اور منی پاکستان کے عوام
کراچی پھر ایک مرتبہ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔اس مرتبہ شدید سے مراد 44،45 سینٹی گریڈ ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ایک طرف قیامت کی یہ گرمی ہے،ادھر صوبائی حکومت نے یہ احسان کیا کہ پانی اور بجلی کا بحران پیدا کردیا ہے۔ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کراچی کے شہریوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔کہا جاتا تھا کہ سبی اور جیکب آباد میں گرمی کے ریکارڈ بنتے ہیں ،لیکن اب تو یہ بحیرہ عرب کاساحلی شہر کراچی ہے جہاں آئے دن یہ ریکارڈ بننے کے ساتھ ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اس گرمی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سمندر کی ہوائیں رک گئیں ہیں اورصحرا کی تپتی ہواوں نے شہر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔رمضان کے 5 دن تو شہریوں کو یوں لگا کہ وہ کسی تندور میں رہ رہے ہیں۔نہ دن کو چین اور نہ ہی رات کو آرام ،ایسی بے کیفی کا عالم شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک کے باشندے ہوکے رہ گئے ہیں جنہیں نہ سردی راس آتی ہے نہ گرمی۔بارشیں باران رحمت کے بجائے زحمت کا باعث بن جاتی ہیں۔یہ کہ کر اپنے آپ کو تسلی دی جاسکتی ہے کہ گرمی کی یہ شدت اور طوالت اس موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے جسے دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کہا جارہا ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے لیکن یہ کوئی آج کا انکشاف نہیں بلکہ 20سے 25 سال قبل دنیا بھر کے موسمیاتی سائنسدان یہ وارننگ دے رہے تھے کہ یہ سب ہونے جارہا ہے۔ یعنی گرمیاں بڑھیں گی ،بارش زیادہ ہوگی کہیں تو سمندری طوفان آئیں گے۔اسی لیئے زیادہ تر ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے موسمی دفاعی حکمت عملی اور نظام کا مضبوط کیا ۔افسوس کہ کراچی میںقطعاً ایسا نہیں ہوسکا۔ملک میں بارش اتنی ہوتی ہے کہ سیلاب آجاتے ہیں۔دریا ابل پڑتے ہیں اور پانی سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ ڈیم نہیں بنائے گئے کہ فاضل پانی کا ذخیرہ کیا جاسکے۔ اسی طرح کراچی جیسے شہر کو گرمی کی شدت سے بچانے اور آلودگی کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ درخت لگائے جائیں اور ہریالی بڑھائی جائے۔ لیکن ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا ، ہاں پر ہر اس عمل پر توجہ دی گئی کہ جس سے شہر کی آبادی بنا کسی منصوبہ بندی کے بڑھائی جائے۔اگر کسی نے اس بات کی جانب توجہ دلائی تو اس کا منہ یہ کہ کر بند کردیا گیا ہے۔یہ منی پاکستان ہے اور یہاں جو جس طرح بھی رہے اس پر اس کا حق ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو کیا یہ صوبائی حکومت کا فرض نہیں ہے کہ ہر شخص جو اس شہر میں آتا ہے اسے مناسب معیار زندگی مل سکے۔ اس میں یہ بات شامل ہے کہ جب موسم اپنی شدت دکھائے تو اس سے اس کو تحفظ حاصل ہو۔ ابھی تو
گرمی ، گرمی کا شور ہے۔لیکن اگر ایک ماہ بعد مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو ہر طرف بارش کی تباہی کا شور مچ جائے گا۔ یہ کوئی بحث مباحثے کا موضوع ہے اور نہ ہی اس سے کوئی تعصب یا کسی جماعت کا تعلق ہے۔ یہ کراچی میں رہنے والے ہر ایک شخص کا مسلہ ہے۔گرمی کو ہم روک نہیں سکتے ہیں نہ ہی بارشوں کو بند کیا جاسکتا ہے۔ ہاں جو کام انسانی بس میں ہے اور دنیا بھر میں ایسے شہروں کے لیئے کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر ایسا قابل عمل سہولتوں کا نظام فراہم کردیا جائے جس میں عام آدمی کیلیئے سکون سیرہنا ممکن ہوجائے۔گزشتہ 30 سالوں میں لوگوں نے دیکھا کہ خلیج کے وہ عرب ممالک جہاں پر خاک اڑتی تھی اور گرمی ناقابل برداشت تھی ،پانی کا نام و نشان نہیں تھا اور جہاں کسی جدید سہولت کا تصور تک نہیں تھا۔وہ اب جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہے ہیں۔سعودیہ عرب کا ریاض ، کویت ،قطر کا دوحہ اور متحدہ عرب امارات کا دبئی ان کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہاں ہم نے خود یورپ اور امریکا کی مثالیں پیش نہیں کیں بلکہ اپنے سے بھی بدتر بے آب و گیاہ شہروں کی مثالیں سامنے لائے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ٹیکنولوجی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل سے وہ کام لینا ممکن ہے جس کا آج سے چند عشروں قبل تصور بھی نہ تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دبئی میں زمین کی کمی کو پورا کرنے کئلیئے انتہائی جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک بڑا ٹکڑا زمین، سمندر سے حاصل کیا گیا۔پانی پیچھے چلاگیا اور زمین رہ گئی اور اس علاقے میں اتنا خوبصورت شہر بسایا گیا ہے جو اپنی مثال آْ پ ہے۔ پھر ان ممالک میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں آکر روزگار حاصل کرتے ہیں۔یہاں رہتے ہیں لیکن انہیں کسی بھی قسم کی شہری سہولت سے محرومی کا احساس نہین ہوتا۔ان ملکوں میں پاکستان ، بھارت ، سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ گئے۔ خود بھی خوشحال بنے اور اپنے ملکوں کو بھی ذر مبادلہ فراہم کرکے خوشحال بنایا۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں ،وہاں اپنی مہارت سے ان میں تبدیلی لانے کی وجہ بھی بنتے ہیں اور ان باتوں کو بڑے فخر سے اپنے گھر آکر بتاتے بھی ہیں ،لیکن جب اپنے گھروں اور شہروں کو سنوارنے کا وقت آتا ہے تو پھر اسی پسماندگی میں چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ گویا یہی ہے کہ ہم اپنے ملک میں نہ تو وہ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی وہ حکومتیں لاسکے جو ہمیں ان مسائل سے نجات دلاسکیں۔ہم دنیا کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔آس پاس ملکوں کو ترقی کرتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں لیکن وہ جذبہ اور لگن پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو خود ہمارے ملک اور شہروں کو ان کے قریب لاسکیں۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ،اس کی ذمہ داری حکمرانوں تمام سیاسی جماعتوں ،اداروں اور خود کراچی کے شہریوں کو لینا پڑے گی۔ اس شہر کو اون کرنا پڑے گا یعنی اسے اپنا سمجھنا پڑے گا تبھی یہ ممکن ہوگا کہ اس قسم کی آزمائشوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔