ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کے معیشت پر اثرات

مرکزی بنک نے زر کی رسدمیں پھلائو اور قلت کے پیش نظر بعض اقدامات اٹھائے ہیں۔سٹیٹ بنک کی مکمل خود مختاری کی وجہ سے حکومت اس کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔ عام طور پر لوگوں کی قوت خرید میں جب کمی آنا شروع ہو جاتی ہے تو ان حالات میں سٹیٹ بنک آف پاکستان مختلف قسم کے زری اقدامات اٹھاتا ہے۔ جس میں سب سے پہلے کمرشل بنکوں کے لئے سٹیٹ بنک سے ہنڈیوں کے عوض قرض حاصل کرنے کے ڈسکائونٹ ریٹ یعنی بنک ریٹ کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس سے کاروباری افراد کی قرضے حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اس سے زر کے پھیلاؤ میں کمی سے اس کی شرح مستحکم رہتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر کاروباری سرگرمیوں میں مندے سے بیروزگاری کی شرح میں اضافے سے لوگوں کی آمدنیوں میں کمی آ جائے یا بین الاقوامی کساد بازاری سے تیل او خورک کی قیمتوں میں کمی سے افراط زر کی شرح گرنا شروع ہو جائے تو مرکزی بنک کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اشیائے و خدمات کی قیمتیں اتنی زیادہ بھی نہ گر جائیں کہ معاشرے میں شدید کسا بازاری سے کاروبار افراد کے مصارف پیدائش بھی پورے نہ ہوں اور وہ اپنے کارخانے فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ ان حالات میں مرکزی بنک کمرشل بنکوں کے لئے قرضوں پر ڈسکائونٹ ریٹ کم کر دیتا ہے اور کمرشل بنک کاروباری افراد کے لئے شرح سود کم کر دیتے ہیں جس پر کاروباری طبقہ مالیاتی اداروں سے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے قرضے حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے زر کی رسد میں پھیلائو اور اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔کاروباری سرگرمیوں میں فروغ سے آمدنی، روزگار اور پیداوار کا معیار بڑھنا لازمی نتیجہ ہے۔ تاہم شرح سود میں اضافہ یا کمی جو مرکزی بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافے اور کمی سے منطبق ہوتاس ہے افراط زر اور تفریط زر جس میں اشیاء و خدمات کی طلب میں کمی سے قیمتوں میں گرنے کا رجحان ہوتا ہے واحد عامل نہیں ہے جس سے ملک کی ملکی معیشت کو استحکام دیا جا سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے کھلے بازار کا عمل جس میں افراط زر میں سکیورٹیز اور بانڈز بیچے جاتے ہیں اور تفریط زر جس میں سکیورٹیز اور بانڈز کھلے بازار سے خریدے جاتے ہیں‘ اس کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کے محفوظ شرح تناسب کو افراط زر میں بڑھا دیتا ہے اور تفریط زر میں یہ شرح کم کر دیتا ہے۔ زری اقدامات کے علاوہ افراط زر اور تفریط زر کو قابو میں رکھنے کیلئے حکومت جو اپنی سالانہ آمدنی اور سالانہ وصولیوں کو متوازن بنانے کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے اس سے بھی ملک کو مالیاتی استحکام حاصل ہوتا ہے۔
قرضوں کی بہتر شرح وصولی کے بغیر ترقی پذیر ممالک میں مجموعی طور پر معیشت کی صورتحال پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ مثلاً موجودہ صوتحال میں تو یہ بات بڑی خوش آئند دکھائی دیتی ہے کہ موجودہ حکومت نے معاشی ترقی کی شرح نمو کو نئے مالی سال میں 5 فیصد سے زیادہ بڑھانے کا ہدف قائم کیا ہے اور اس مقصد کیلئے اس وقت سٹیٹ بینک نے ڈسکائونٹ ریٹ کو 42 سالوں کی کم از کم شرح پر متعین کر دیا ہے اور یہ بھی شنید ہے کہ ایک دو ماہ میں اس کی شرح 7 فیصد سے مزید کم کرکے 6.5 فیصد کر دی جائے گی اور چونکہ اس وقت کراچی انٹر بینک جسے KEBOR کہتے ہیں اس کی شرح 4.51 فیصد ہے تو قرض خواہوں کو 11 سے 12 فیصد شرح پر بینکوں کے قرض مل جایا کرے گا مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ کمرشل بینک اپنے ڈیپازٹس پر بھی شرح منافع کم کر دیتے ہیں جوکہ سراسر زیادتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں قرض پر شرح سود اور بینکوں کے ڈپیازٹس پر شرح منافع میں بینک محض 3 سے 4 فیصد فرق رکھتے ہیں جسے بینکنگ پریڈ کا نام یا جاتا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں بینکنگ پریڈ کی شرح 7 سے 8 فیصد ہے۔ یعنی جو لوگ بینکوں میںاپنی رقمیں جمع کرتے ہیں‘ انہیں 3 فیصد سے 7 فیصد سود دیا جاتا اور جو لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرتے ہیں بینکوں کی مختلف پراڈکٹس پر یہ شرح 12 فیصد سے 35 فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ مثلاً اگر آپ اپنے کریڈٹ کارڈ پر کیش قرض لیں گے تو شرح سود 30 فیصد تک پہنچے گی۔ اگر گاڑی یا گھر پر قرض لیں گے تو شرح سود اور بینکوں کے سروسز چارجز ملا کر آپ کو 16 فیصد سے 22 فیصد شرح سود ادا کرنا ہوگی ۔
اگرچہ موجودہ حالات میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی‘ بیرون ملک سے ترسیلات کا 18 ارب ڈالرز تک پہنچنا اور سٹیٹ بینک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر کا 121 ارب ڈالرز اور نجی بینکوں کے پاس 5 ارب ڈالرز تک جا پہنچنا ہماری معیشت کے لئے اچھے اعشاریے ہیں تاہم شرح سود میں کمی سے قومی بچت اور عام ڈپازٹس رکھنے والوں لوگوں کے منافع کی شرح میں کمی آ جاتی ہے ۔ جس سے غریب لوگ اپنے فکسڈ ڈپازٹس میں اپنی چھوٹی موٹی بچت کی آمدنی سے اپنی جائز ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا سٹیٹ بنک کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے کہ بنک ڈپازٹس پر شرح سود میں کمی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ 30 جون 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق بنکوں کے کلی قرضوں کا پچانوے فیصد امراء کو ملتے ہیں جبکہ بنک سپریڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے کمرشل بنکوں نے اس سال 214 ارب روپے منافع کمایا ہے۔ وزیراعظم کی قرضہ فراہمی کی سکیم اس لئے ناکام ہو گئی ہے کہ کمرشل بنک 11 فیصد شرح سود پر عام لوگوں کو قرضہ دینے پر راضی نہیں ہیں دوسرا عام لوگ ان قرضوں کے حصول کے لئے نہ تو کوئی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی مناسب کولیٹرل جس کے عوض قرض کم شرح سود پر حاصل کیا جا سکے۔ جس پر یہ بنک چینی، کپڑے اور سیمنٹ فیکٹریوں کے مالکان کو قرضہ دیتے ہیں اور بعد میں ان کے اربوں روپے کے قرضے معاف کر دیتے ہیں۔بہرحال موجودہ حکومت خوش قسمت ہے کہ جہاں اس کو آئی ایم ایف سے 6.7ارب ڈالرز کا بیل آئوٹ پیکج حاصل ہوا ہے وہیں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں، گندم اور چاول کی قیمتوں میں کمی سے افراط زر میں مسلسل کمی سے لوگوں کی قوت خرید کسی حد تک مستحکم ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر صارف کی قوت خرید کے پیمانے کی بنیاد پر افراط زر کی شرح پاکستان کی تاریخ کی کم سے کم سطح پر آ چکی ہے جو اپریل میں 2.11فیصد تھی پاکستان شماریات بیورو کے مندرجہ چارٹ کے مطالعہ سے افراط زر میں کمی کے رجحان کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ورلڈ بنک کے مطابق اگر ہم 1957ء سے 2015ء تک افراط زر کی شرح کا اندازہ لگائیں تو یہ اوسطاً 7.99فیصد بنتی ہے۔ دسمبر 1973ء میں اس کی شرح سب سے زیادہ یعنی 37.8فیصد تھی اور فروری 1959ء میں یہ سب سے کم شرح منفی 10.32فیصد تھی جبکہ مرکزی بنک کی ڈسکائونٹ ریٹ کی زیادہ سے زیادہ شرح 22اکتوبر 1996ء کو 20فیصد تھی جبکہ اب 25مئی 2015ء کو سٹیٹ بنک کے گورنر اشرف وترا کے مطابق یہ شرح 7فیصد ہے جو اب تک پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم شرح ہے۔ جہاں CPiپر افراط زر کی شرح اپریل میں 2.11فیصد تھی جبکہ حساس اشیاء کی بنیاد پر sensitive price indexپر افراط زر کی شرح 6.1پر آ گئی ہے ماہرین کے مطابق موجودہ مالی سال میں اگر بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا تو اس سال کے آخر پر افراط زر کی شرح اوسطاً 5فیصد رہے گی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ضیاع پذیر اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ سال 2004ء فیصد سے کم ہو کر 4.4فیصد آ گئی ہے جس کی بڑی وجہ پاکستان میں گندم کی اچھی فصل اور اس کے علاوہ باہر سے اس کی وافر درآمد اور چاولوں کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی ہے اس کی برآمدات نہ ہونے سے افراط زر کی شرح کم ہو گئی جس سے کساد بازاری کے خطرے کے پیش نظر شرح سود کم رکھنا ضروری ہے۔