
قلمی چغلیاں۔ شفقت رانا
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلی یہ سوچ کر توڑی تھی کہ بڑے صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹیں گی تو پاکستان میں قومی الیکشن جلد ہو جائیں گے۔ لیکن انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایسا نہیں ہوا انہوں نے صاف الفاظ میں اپنے اِس فیصلے کو دہرایا کہ انہوں نے جو چاہا تھا وہ نہیں ہوا اور موجودہ حکومت کی جانب سے ایسا کیا جانا بالکل غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔عمران خان پاکستانی عوام کے ساتھ کو اپنی سب سے بڑی طاقت کہتے ہیں اور ہے بھی ایسا ہی کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک موجودہ حکومتی مشینری عمران خان کوگرفتار کر چکی ہوتی۔بہت دفعہ یہ کوشش کی بھی جا چکی ہے لیکن عوامی ’’اکٹھ‘‘ حکومتی مشینری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوامی ساتھ کب تک اور کتنی تعداد میں عمران خان کی ڈھال بنا رہے گا؟ اِس حوالے سے عمران خان کے حوصلے کی داد دینا پڑے گی کہ شارجہ میں پاکستانی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی مل کر 100سکور کا ہندسہ عبور نہ کر سکے لیکن پاکستان میں اکیلے کپتان نے اپنے اْوپر کاٹی جانے والی ایف آئی آرز کی سنچری مکمل کر لی ہے اور اْس پرحیران کن بات یہ کہ کوئی مائی کا لال انہیں کسی ایک ایف آئی آر میں بھی گرفتار نہیں کر سکا۔تحریک انصاف کے چیئر مین اپنی ضمانت کے لئے جس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں وہیں سے اْن کی ضمانت منظور ہو جاتی ہے۔ کچھ معززین یہ کہتے ہیں کہ جج حضرات عمران خان کی طرف داری کر رہے ہیں جبکہ کچھ محققین یہ کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت اِس لئے منظور کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین سمیت کارکنان کا اعتماد عدالتوں پر بنا رہے اور جس دِن عدالت کے حکم پر ہی عمران خان کو لمبی چوڑی سزا کے لئے گرفتار کیا جائے تو کوئی کارکن یا تحریک انصاف کا عہدیدارعدالتی فیصلے کے خلاف شور نہ کرے، اب اِن دونوں تجزیوں میں کون سا سچا ہے، سچا ہے بھی یا نہیں؟ یہ اندازے لگانے قبل از وقت ہیں۔ویسے دیکھا جائے تو عمران خان زیادتی کر رہا ہے کیونکہ اچھا بھلا 20یا 22خاندان پاکستان پر مسلسل حکومت کر تے آ رہے ہیں، کبھی خود کبھی اْن کے بچے اور اب اْن کی تیسری نسل پاکستان کی سالمیت اور معیشت کا بیڑا غرق کرنے پر براجمان ہے، اب عمران خان اِس وراثتی سلسلے کو ختم کرکے عوام کے فوائد کی بات کرتا ہے یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟ عمران خان قوم کو غلامی سے نکال کر حقیقی آزادی کی طرف لے جانا چاہتا ہے، امریکا سمیت کسی بھی بڑی طاقت سے ڈرختم کرنا چاہتا ہے، عمران خان چاہتا ہے کہ ہماری قوم لائنوں میں لگ کر دوسرے ممالک کے ویزے نہ لے بلکہ دوسرے ممالک کے لوگ پاکستان نوکری کرنے آئیں اب یہ زیادتی نہیں تو اورکیا ہے؟ عمران خان کی خواہش ہے کہ پاکستانی نوجوان غیر قانونی طریقوں سے یورپی ممالک جاتے ہوئے اپنی جانوں کو خطرے میں مت ڈالیں اوریورپ کے بپھرے ہوئے سمندر کی لہروں میں قیمتی جانیں ضائع نہ کریں، ساتھ ساتھ یہ کہ عمران خان کو کیا ضرورت تھی کہ اقوام متحدہ میں جا کر اسلام کے تحفظ کی بات کرتا انہیں آنکھیں دِکھاتا دْنیا کو بتاتا کہ جب ہمارے نبی ? کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو ہمارے دِل کتنے دْکھتے ہیں،سب کو دو ٹوک کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم پاکستانی اب مقابلہ کریں گے، اپنے پیارے نبی? کی شان کا تحفظ کریں گے۔ کیا ضرورت تھی دْنیا کو کہنے کی کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں،یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ عمران خان کو بھی پاکستان کی معیشت کو پستیوں میں دھکیلنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے تھا۔ہر بات میں شادی بیاہ کی طرح امریکا کو ’’خالو‘‘ بنا کر اْس سے مشورہ لینا چاہیئے تھا۔ نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے سیاستدانوں کے بچوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیئے تھا، افسر شاہی اور بیو کریسی کو من مانی کرنے دینی چاہیئے تھی۔عدالتوں کو سال ہا سال مقدمات میں عوام الناس کو الجھائے رکھنے کی اجازت دینا چاہیئے تھی۔یقین کریں عمران خان پاگل نہیں تو اور کیا ہے؟ عمران خان کو چاہیئے کہ وہ جائے اور اپنے بچوں کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارے انجوائے کرے، انٹرنیشنل میچوں کی کمنٹری کرے اور کروڑوں کمائے، دْنیا کی بڑی یونیورسٹیز میں لیکچرز دے اور منہ مانگی قیمت لے، لوگوں کو آٹو گراف دے سلفیاں بنوائے اور زندگی کے باقی دِن محفوظ طریقے سے بسر کرے، لیکن نہیں وہ تو پاکستانیوں کے بچوں کے تابناک مستقبل کی خاطر کبھی فائر کھاتا اور کبھی مقدمات کا سامنا کرتاہے ایسی پوزیشن میں عمران خان کو پاگل نہ کہا جائے تو آپ ہی بتائیں اْسے کیا کہیں؟ جو ادارے کرپشن کرتے ہیں انہیں ننگا کرنا، عوام کو شعور دینا، ووٹ کی طاقت بتانا،اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرنا، مسلم ممالک سے مضبوط تعلقات استوار کرنا، پاکستان کو شوکت خانم اور نمل یونیورٹی جیسے بڑے اور انٹرنیشنل لیول کے ادارے دینا، نبی? کی شان میں گستاخی کو برداشت نہ کرنا، اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر اسلامو فوبیا کا دفاع کرنا، دْنیا کے بڑے اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے قائل کرنا، بڑی طاقتوں کے سامنے پاکستان کا ذاتی موقف رکھنا، رْوس اور یوکرائن کی جنگ میں اپنے وطن کی سالمیت اور اپنے رکھ رکھاؤ کے مطابق فیصلہ کرنا، امریکا کو کہنا کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں، پاکستان کے استحکام کے لئے پالیسیاں بنانا، نوجوان نسل کو پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالنے کی ترغیب دینا اور ایسے بہت سے فیصلے ہیں جو یقینا عمران خان کے پاگل پن کی عکاسی کرتے ہیں۔اب ایسے پاگل انسان کو پاکستان کا کرپٹ ٹولہ کیسے برداشت کرے گا؟وہ ٹولہ گولیاں بھی چلائے گا، عوام کو دفاعی پوزیشن سے دْور بھی کرے گا، عمران خان کو گرفتار کرنا بھی اْس ٹولے کا اؤلین فرض بنا ہوا ہے، کرپشن کا بازار گرم رکھنے والے عمران خان یا ایسے کسی بھی شخص کو برداشت نہیں کریں گے جو اْن کے موروثی طریقہ ِواردات کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ دو دِن پہلے مینار ِپاکستان لاہور میں ہونے والے جلسے میں عوام کی تعداد نے ثابت کر دیا ہے کہ جب عوامی جذبات کا سیلاب آتا ہے تو پھر کوئی حکومتی کنٹینر یا رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی، اِس بات کا ثبوت مینارِپاکستان جلسے میں حکومتی نمائندوں کو مل چکا ہے، ویسے بھی اپریل میں ہونے والے انتخابات کو اکتوبر تک طول دیئے جانے میں حکومتی اداروں کی بد نیتی اِس حوالے سے شامل ہے کہ تب پاکستان کے صدر عارف علوی نہیں ہوں گے،تب اپنا صدر ہوگا، اپنا نیب کا چیئر مین ہوگا، اداروں کے سربراہان اپنی مرضی کے ہوں گے، صوبائی وزرائ اعلیٰ، چیف سیکرٹری، سیکیورٹی اداروں کے سربراہان، پولیس، عدالتیں سب اپنی ہوں گی وہاں اپنی مرضی کے آفیسر ہوں گے اور پھر الیکشن ہو گا، اْس کے بعد اپنا رزلٹ ہوگا اور جیت کا بگل بجے گا۔ لیکن یہ سب خام خیالی ہے کیونکہ اب ہر جگہ عوام ہوگی اور تمام فیصلے عوام کے سامنے کرنے ہوں گے، اب چوری یا سینہ زوری نہیں چلے گی۔