پیر ‘ 5 رمضان المبارک 1444ھ‘ 27 مارچ 2023ئ

پی ٹی آئی لاہور کا جلسہ اور عمران خان کا وہی بیانہ
گزشتہ شب مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کے جلسے میں عمران خان حسب معمول اسی طرح گرجے اور برسے جیسے وہ گزشتہ 9 ماہ سے گرج اور برس رہے ہیں۔ جلسہ بے شک کامیاب تھا مگر وہ پہلی جیسی بات نہ تھی۔ جب شاہی چھتری تلے خدام کے جلو میں خان صاحب خاقان اعظم بن کر نزول فرماتے تھے اور پوری ریاستی مشینری ان کے جلسوں کو فقید المثال بناتی تھی۔
مگر یہ حقیقت بھی یاد رکھنے والی ہے کہ اب لاہور یعنی مسلم لیگ (نون) کے قلعے میں کھلاڑی جو نقب لگا چکے ہیں وہ بھرنے والا نہیں۔ قلعے کی دیواروں میں جابجا دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سرنگیں بن چکی ہیں۔ کل رات بھی ایک اور دیوار میں نقب لگی ہے۔ بڑا نہ سہی چھوٹا ہی سہی سوراخ تو سوراخ ہو تا ہے۔ خان صاحب نے اپنی تقریر وہی امریکہ کے سائفر سے شروع کی ‘مقتدر ادارے کی کردار کشی کے بعد چوروں ، ڈاکوﺅں کی مذمت پر ختم کی ‘ لیکن کوئی نئی بات نہیں کی۔
جلسے سے قبل انہوں نے آئندہ کے اہم لائحہ عمل کی بات کی تھی مگر شاید سامعین کی تعداد دیکھ کر انہوں نے انہیں اس قابل نہیں جانا کہ ان سے اتنی اہم اور بڑی بات کرتے۔ اگر عدلیہ کے ساتھ قوم کے کھڑا ہونے کی بات ہے تو یہ وہ پہلے بھی کئی بار بڑے زور و شور سے کہہ چکے ہیں۔ ہاں اگر وہ یہ کہتے کہ مسلم لیگ (نون) والے اسی جگہ یا کسی اور مقام پر اتنا بڑا جلسہ کر کے دکھائیں تو بات بنتی۔ یہ چیلنج قبول کرنا واقعی مسلم لیگ (نون) والوں کے لیے ناممکن ہو سکتا ہے۔ رہی بات سائفر کی تو اس کی حقیقت اب ڈھکی چھپی نہ رہی۔ بقول شاعر
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اس لیے کارکن اب عمران خان سے ان کے مستقبل کے حوالے سے واضح پروگرام مانگتے ہیں کیونکہ اب ان کا صبر بھی جواب دینے لگا ہے۔ ویسے بھی پارٹی کے کئی رہنما ”ممولے کو شہباز سے لڑانے کے درپے ہیں۔
٭٭٭٭٭
تلف شدہ مضر صحت اشیائے خوردو نوش فروخت کرنے والوں کیخلاف ایکشن
ناقص مضر صحت غیر معیاری کھانے پینے کی اشیا جنہیں تلف کر دیا جاتا ہے۔ہمارے متقی پرہیز گار تاجر حضرات ایک بار پھر نئی پیکنگ میں تیار کر کے بازار میں فروخت کرنے لگے۔ اس طرح وہ رمضان میں نیکیوں کے ستر گنا اضافی ثواب کے ساتھ مردار اور خراب اشیاءفروخت کر کے منافع بھی 70 گنا تو کیا 100 گنا زیادہ کمانے لگے ہیں۔ کئی شہروں میں ایسی اطلاعات موصول ہونے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آ گئی ہے۔ کئی جگہ چھاپے بھی پڑے ہیں۔ مگر تاجر طبقہ خدا سے نہیں ڈرتا وہ بھلا چھاپوں سے کیا ڈرے گا۔ آخر چھاپے بھی تو ہمارے جیسے انسانوں نے ہی مارنے ہیں جو رمضان میں ثواب اور نذرانہ ڈبل وصول کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
عجیب لوگ ہیں ہم نماز، روزہ، حج اور زکوة پر عمل کرتے ہیں۔ مگر بے ایمانی ، حرام خوری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز نہیں آتے۔
نجانے ہم اتنے دلیر کیوں ہو گئے ہیں کہ ان تمام کرتوں کے باوجود توند پر ہاتھ پھر کر ”بس جی اوپر والے کا کرم ہے“ کہہ کر اپنی دو نمبری بے ایمانی سے حاصل ہونیوالی آمدنی کو بھی رزق حلال ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم انسانی صحت اور جانوں سے کھیلتے ہوئے بھی ذرا بھر نہیں چوکتے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ضائع شدہ مضر صحت ناقص دو نمبر کھانے پینے کی اشیاءانسانی زندگی کے لیے کتنی خطرناک ہے۔ سب جانتے ہیں مگر کیا مجال ہے جو انہیں نئی پیکنگ یا دوسرے مال میں شامل کر کے فروخت کرتے ہوئے کسی کو رتی بھر بھی ملال ہوتا ہو۔ یہ حاجی نمازی اسے کاروبار کہہ کر اسی طرح حلال سمجھتے ہیں جس طرح افغان سود اور سمگلنگ کو کاروبار کہہ کر اپنے ضمیر کو تسلی دیتے ہیں۔ اسی لیے اسلحہ ہو یا منشیات دھڑا دھڑا افغانستان سے پاکستان سمگل ہوتی ہے اور ہمارے ادارے بھی اپنا حصہ لے کر اسی طرح چپ سادھ لیتے ہیں جس طرح انتظامیہ ناقص مضر صحت دو نمبر اشیاءکی فروخت اپنی ناک کے نیچے دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہتی ہے۔
٭٭٭٭٭
میرا دل پاکستان اور قوم کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ نواز شریف
واہ کیا بات ہے جس دل کے علاج کے لیے آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان سے برطانیہ گئے‘ اب پھر اس میں پاکستان کی محبت جاگ ا±ٹھی ہے تو خیال رکھیں دل تو پاگل ہے‘ کہیں اس کی باتوں میں آکر آپ کی صحت کا کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔
جس ملک و قوم کے ساتھ آپ کا دل دھڑکتا ہے‘ ان کے تو اپنے دل بند ہیں۔ وہ تو پریشان ہیں۔ بے شک آپ کے دور میں مہنگائی کا بھوت لوگوں کو ڈرایا نہیں کرتا تھا۔ روزگار بھی اچھا خاصہ چل رہا تھا۔ لوگ آج بھی اس دور کو یاد کر رہے ہیں مگر اب بھی تو آپ کی پارٹی کی حکومت ہے۔ دیکھ لیں ملک کا کیا حال ہو چکا ہے۔ مگر ایسی باتیں سوچ کر آپ اپنے دل و دماغ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ
دے رہی ہے مزہ بے رخی آپ کی
آپ ”آئیں“ نہ ”آئیں“ خوشی آپ کی
عوام کا تو اب واقعی خدا ہی حافظ ہے۔ آپ جہاں رہیں خوش رہیں۔ اگر ہو سکتا ہے تو ایک نیکی ضرور کر جائیں‘ اپنی پارٹی کے ارب پتی رہنماﺅں اور اتحادیوں کے ارب پتی قائدین سے کہیں کہ وہ اگر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں تو اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں۔ اس طرح عوام کو رام کریں ورنہ کسی کی سونے کی لنکا محفوظ نہیں رہے گی۔
عمران خان اپنی تمام بدزبانی اور بدکلامی کے باوجود صرف اس وجہ سے عوام میں مقبول ہیں کہ وہ موجودہ حکمران ٹولے کو چور و ڈاکو کہہ کر لوگوں کا دل خوش کرتے ہیں۔ لوگ ان کی باتیں س±ن کر تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ اب آپ لوگ بھی عوام کا دل جیتنے کے لیے اپنے دل کو چھوڑیں۔ تجوریوں کے منہ کھول دیں تو بات بن سکتی ہے۔
جبھی تو بڑوں نے کہا ہے ”جب پیٹ میں روٹی نہ ہو تو سب باتیں بھی جھوٹی لگتی ہیں۔ یہی حقیقت ہے کہ بے شک ارکان اسلام پانچ ہیں مگر چھٹا روٹی کو کہا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭