پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ( ن) کے دوستوں سے درخواست ہے ذرا سا پانی پی لیں، حوصلہ رکھیں، مریم نواز سمیت دیگر لوگ پیپلزپارٹی کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں، مسلم لیگ ن سے بالکل توقع نہیں تھی کہ سینیٹ میں امیدوارکی ہار کے بعد خان صاحب جیسا ردعمل دے، سلیکٹڈ کالفظ میں نے دیاہے تومیں جانتاہوں وہ کس پراستعمال ہونا بنتا ہے کس پرنہیں،سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانا ہماری جماعت کا حق تھا، مسلم لیگ (ن)کے اعظم نزیر تارڑ ایک متنازع امیدوار تھے،بی اے پی کے سینیٹرز اب اپوزیشن بینچز میں بیٹھ رہے ہیں انہیں ویلکم کرتا ہوں،چاہتا ہوںپی ڈی ایم کا اتحاد برقرار رہے اور اسے کوئی نقصان نہ ہو، ایک دوسرے پر تنقید سے حکومت کو فائدہ ہوگا، اسٹیٹ بینک سے متعلق مجوزہ آرڈیننس خود مختاری چھیننے کے مترادف ہے، مجوزہ آرڈیننس مالی خود مختاری پر حملہ ہے، حکومت اسے واپس لے، حکومت میں وہ اہلیت نہیں کہ آئی ایم ایف کے سامنے صحیح فیصلے کرے، تاریخی ناکامی ہے کہ شرح نمو جنگ زدہ افغانستان اور بنگلا دیش سے بھی کم ہے، صرف ندیم بابر نہیں وزیراعظم سمیت کابینہ میں جس جس نے فیصلے کیے سب کو ہٹانا چاہیے۔ہفتہ کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کی تاریخ ہے جس کی اپوزیشن میں اکثریت ہوتی ہے قائد حزب اختلاف بھی اس کا ہوتا ہے ، سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے اور میں اپنی پارٹی کو کیسے کہہ سکتا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف نہ بنائے اور مسلم لیگ (ن) کے تارڈ صاحب کو قائد حزب اختلاف پر ہے تو دلائل دیں اور اعظم نزیر تارڈ ہماری جماعت کی نظر میں بہت ہی زیادہ متنازعہ تھے ۔بلاول بھٹو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور میاں محمد نوازشریف نے میرے والد آصف علی زرداری سے یہ بات نہیں کہ ہم قائد حزب اختلاف کی سیٹ چاہتے ہیں ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانا ہمارا حق تھااور جب سینیٹ میں (ن)لیگی اور ان کے ساتھ دیگر جماعتوں کی تعداد26تھی جبکہ پیپلزپارٹی کے 21،اے این پی کے 2،جماعت اسلامی کے ایک ،فاٹا کے دو ممبران ملانے سے ہمارے بھی 26ووٹ ہوتے ہیں اور سینیٹ کے قوانین کے مطابق جب 26,26ووٹ برابر ہوں تو پھر اس جماعت کو حق دیا جاتا ہے جس کی ایوان میں اکثریت ہو۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کی تیسری لہر بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، سندھ میں ابھی کورونا وبا اس تیزی سے نہیں پھیل رہی لیکن کورونا کی وجہ سے ہم نے دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر تقریب نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں کوئی جلسہ نہیں ہو گا لیکن قرآن خوانی ہو گی اور 5 اپریل کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس ہو گا جس میں پی ڈی ایم کی جدوجہد کو آگے بڑھانے سے متعلق امور پر غور کریں گے۔یوسف رضا گیلانی کو باپ کے ووٹوں سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل سے میڈیا پر اس حوالے سے پروپیگنڈا ہو رہا ہے، آئینی اور جمہوری روایات کے مطابق 21سینیٹرز کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان بالا میں دوسری بڑی جماعت ہے اس لیے یہ ہمارا جمہوری حق ہے کہ یہ عہدہ ہمارے پاس ہو۔انہوں نے کہا کہ میری جماعت کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میں کیسے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا کہ آپ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہ دیں اور ن لیگ کے اعظم نزیر تارڑ کو ووٹ دیں جو ایک متنازع امیدوار تھے۔انہوں نے بتایا کہ ن لیگ کے پاس 26 امیدوار تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس بھی 21 سینیٹرز کے علاوہ اے این پی کے دو ممبرز، جماعت اسلامی کے ایک اور فاٹا کے دو سینیٹرز کے ساتھ ہمارے پاس بھی 26 ممبرز بنتے تھے، سینیٹ رولز کے مطابق دو امیدواروں کے برابر ووٹ ہوں تو اس صورت میں زیادہ امیدوار رکھنے والی جماعت کا ہی قائد حزب اختلاف ہوتا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ن لیگ کے سابق سینیٹر دلاور خان سے ہم نے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں حمایت کا یقین دلایا اور پھر انہوں نے بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین آزاد سینیٹرز ان کے ساتھ ہیں، ان لوگوں نے ایک گروپ بنا رکھا ہے جس میں ان کے ساتھ مزید تین سینیٹرز شامل ہیں، میں اس فیصلے کا احترام کرتا ہوں کہ اگر حکومتی بینچز سے اٹھ کر لوگ اپوزیشن بینچز میں بیٹھ رہے ہیں تو ہمیں اسے سراہنا چاہیے، ہم حکومتی لوگوں کو توڑ کر ہی اس کٹھ پتلی حکومت کے خلاف پارلیمان میں جدوجہد کر سکتے ہیں۔مریم نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی پر تنقید سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا چاہوں گا کہ پی ڈی ایم کا اتحاد برقرار رہے کیونکہ اس کی بنیاد میں نے رکھی تھی، مریم نواز کی بہت عزت کرتا ہوں اور پی ڈی ایم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا اس لیے ان کے بیان پر ردعمل نہیں دوں گا، آپ لوگ اپوزیشن کو کیوں لڑوانا چاہتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ سلیکٹڈ کا لفظ تو میں نے ایجاد کیا تھا تو میں جانتا ہوں کہ اس لفظ کو کس پر استعمال کرنا ہے اور کس پر نہیں۔انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی صفوں میں دیکھیں کہ کون ہے جو انہیں پیپلز پارٹی سے لڑنے کے غلط مشورے دے رہا ہے، ہم ایک ساتھ رہ کر ہی اس حکومت کے خلاف جدوجہد کر سکتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اسٹیٹ بینک سے متعلق مجوزہ آرڈیننس خود مختاری چھیننے کے مترادف ہے، کی مذمت کرتے ہیں، مجوزہ آرڈیننس مالی خود مختاری پر حملہ ہے، حکومت اسے واپس لے، حکومت میں وہ اہلیت نہیں کہ آئی ایم ایف کے سامنے صحیح فیصلے کرے، تاریخی ناکامی ہے کہ شرح نمو جنگ زدہ افغانستان اور بنگلا دیش سے بھی کم ہے، صرف ندیم بابر نہیں وزیراعظم سمیت کابینہ میں جس جس نے فیصلے کیے سب کو ہٹانا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38