پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ لے گئی۔ اس پارٹی کو فیصلہ اپنے حق میں آنے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا 12 مارچ کو گیلانی صاحب کے چیئرمین سینٹ بننے کا تھا۔ مگر سات ووٹ گیلانی کے نام کے عین اوپر مہر لگنے کی وجہ سے مسترد ہو گئے۔ یہ گیلانی صاحب کے حق میں شمار ہو جاتے تو وہ ایک ووٹ کی برتری سے وہ جیت جاتے۔ ایک سینیٹر نے دونوں امیدواروں کے نام کے سامنے مہر لگا دی۔ اس نے گیلانی صاحب کو ووٹ دیا ہوتا تو وہ دو ووٹوں سے فتح یاب ہوتے ۔ سنجرانی کے حق میں مہر لگائی ہوتی مقابلہ 49-49 سے مقابلہ برابر ہو جاتا اور دوبارہ پولنگ میں شاید وہ رزلٹ سامنے آتا جو ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں دیکھنے کو ملا۔ مگر یہ سب "اگر" سے وابستہ ماضی ہے جس کی اب اہمیت یا حیثیت مفروضے سے زیادہ نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ ہیں جبکہ یوسف رضا گیلانی اور عبدالغفور حیدری اور انکے ’’پُرخلوص‘‘ حامی زخم خوردہ ہیں۔ مسترد ہونے والے سات ووٹوں کو بحال کرنے کے حق میں فاروق ایچ نائیک کے دلائل بڑے زور دار اور جاندار تھے مگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے انکی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیدیا۔ الیکشن کے روز جب پریذائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے ان ووٹوں کو مسترد کیا تو مسلم لیگ ن اور پی پی کے سینیٹرز حضرات نے سینٹ میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ سینٹ میں ہونیوالی کارروائی براہِ راست نشر کی جا رہی تھی۔ فاروق ایچ نائیک پیپلز پارٹی کی قیادت کے ’’فیملی وکیل‘‘ ہیں۔ سوئس اکائونٹس کا بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں۔ سوئس حکام کو خط لکھنے سے ایسے ہی قانون دانوں نے باز رہنے کے لیے وزیراعظم گیلانی کو ورغلایاتھا۔ اُس وقت تو زرداری صاحب اُس گرداب سے نکل آئے لیکن اب براڈشیٹ کی دلدل میں دھنس اور پھنس رہے ہیں۔
سینٹ میںفاروق ایچ نائیک ووٹ مسترد ہونے پر بڑے جذباتی ہو رہے تھے۔آمادۂ فساد تھے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران گیلانی صاحب کے نام پر لگی مہر والے ووٹ کو سینٹ سیکرٹریٹ کے اہلکاروں نے مشکوک قرار دے تیسری باسکٹ میں رکھا تو فاروق ایچ نائیک اس عمل پر خاموش بیٹھے رہے۔ یہ گیلانی صاحب کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ بعد ازاں سات ووٹ مسترد ہونے پر وہ جلال میں آگئے۔ اب پی پی پی مظفر حسین شاہ پر ووٹ چوری کا الزام دہرا رہی ہے۔ اگر فاضل ارکان مہر اسی جگہ لگاتے جس کی وضاحت ووٹ کاسٹ کرنے کے ہدایت نامے کی شق چار میںکی گئی ہے تو پریذائیڈنگ افسر کیا کر سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی فتح کے لیے اتنی سرشار تھی کہ سات ممبران کو ان کی وفاداری مشکوک ہونے پر انہیں گیلانی صاحب کے نام پر مہر لگانے کی تاکید کی۔ یہ سات ایک ہی گروپ میں تھے جن کے اتالیق قاسم گیلانی اور سعید غنی بتائے جاتے ہیں۔سینٹرز بچے نہیں ہیں جنہیں علم نہ ہو کہ مہر کہاں لگانی ہے‘ پی پی پی کو اوور سمارٹنس اور اپنے حامیوں پر بااعتمای لے بیٹھی جن کو بیلٹ پیپرپر شناخت چھوڑنے کو مجبور کیا گیا۔ انہوں نے شاید ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں حکومتی امیدوار کو ووٹ دیکر اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔
یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم نے ایک معاہدے کے تحت سینٹ کے چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا تھا جس کے تحت ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری تھے جبکہ مسلم لیگ ن کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ تفویض کرنے پر اتفاق ہوا۔ عبدالغفور حیدری کو مولانا کی ہٹ دھرمی کے باعث ڈپٹی چیئرمین بنایا جا رہا تھا۔ جو بھی ہے‘ ایک معاملہ طے ہو گیا۔ اس پر عمل ضروری ہے ۔ حب اتفاق رائے ہو رہا تھا تو ’’اگر‘ البتہ‘ لیکن‘‘ کی بات نہیں ہوئی۔ پی ڈی ایم کے دونوں امیدوار ہار گئے لیکن معاہدہ یا اتفاقِ رائے اپنی جگہ موجود ہے۔ جس کے تحت اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کامقرر ہونا طے پایا تھا مگر پی پی پی اپنا امیدوار لانے کا اعلان کر رہی ہے۔تازہ ترین خبر کے مطابق یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا گیا ہے جبکہ ن لیگ منہ تکتی رہ گئی۔ 16 مارچ کو آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نوازشریف کی واپسی پر استعفوں اور لانگ مارچ سے مشروط کرکے اس اتحاد کی چولیں ڈھیلی کر دیں۔ وہ اس معاہدے سے اسی طرح پسپائی اختیار کر گئے جس طرح مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جسٹس افتخارمحمد چودھری کی بحالی کا معاہدہ کرکے بیک فٹ پر چلے گئے تھے۔ انہوں نے اُس موقع پر کہا تھا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ یوسف رضا گیلانی کو پی پی پی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتی ہے جبکہ ن لیگ اعظم نذیر تارڑ کو۔ اس حوالے سے زوردار مہم چلائی جا رہی ہے۔ بلاول نے جماعت اسلامی کے اکلوتے سینیٹر کی حمایت کیلئے سراج الحق سے ملاقات کی۔ کہا جا رہا ہے کہ سراج الحق نے حمایت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے مقابلے میں پی پی پی کی حمایت۔ اب جماعت کی طرف سے کچھ اپنی ہی وضع کردہ اس"عالمی سچائی" چھوٹی اور بڑی برائی میں ترمیم کی گئی ہے۔ کل تک وہ مسلم لیگ ن کو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں چھوٹی برائی قرار دیتی تھی‘ اب پی پی پی ن لیگ سے چھوٹی برائی بن گئی ہے؟ اپوزیشن لیڈر کے طریقۂ انتخاب پر کنور دلشاد صاحب سے بات ہوئی وہ کہتے ہیں۔اس عہدے کے امیدوار اپوزیشن کے سینٹرز سے دستخط کرائیں گے۔ چیئرمین سینٹ جس کے ساتھ زیادہ سینٹر ہوئے تصدیق کرکے اس کی تقرری کردیں گے۔
آج پی پی پی اور نواز لیگ اختلافات کے باعث پی ڈی ایم انتشار اور اتحاد کے دوراہے پر ہے۔ گویا پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ جبر، ستم اوردشنام الزام اور سب وشتم کا تقابل کیا جائے تو ن لیگ پی پی پی پر حاوی نظر آتی ہے۔ بینظیر کے دور میں میاں صاحب کے ابا جی ایک ہی رات جیل میں رہے نواز دور میں زرداری کئی سال قید رہے۔ (زرداری صاحب کسی بھی دور میں جرمِ بے گناہی پر نہیں پکڑے گئے بلکہ وہ اپنے "اعمالات" اور کمالات پر جیل جاتے رہے)۔ بینظیر بچوں سمیت پیشیوں کی چکی میں پستی رہیں پھر وہ تصویریں اور الزامات ایک طویل داستان ہے۔ زرداری صاحب نے پی ڈی ایم بنوا کر نوازشریف اور مریم سے وہ کچھ کہلوا لیا جس سے وہ پی پی پی کی طرح ن لیگ کے بھی ہیرو قرار پائے۔ مریم نے ان شہیدوں کی چوکھٹ پر جبین نیاز ٹیک دی جن کو کبھی غدار کہا جاتا تھا۔ بلاول کو بھائی بنایا زرداری کو والد کا درجہ دیا۔ زرداری نے بڑی ذہانت اور زیرکی، چالاکی وشاطری سے تمام بدلے چکا کر ن لیگ کو اوج ثریا سے زمین پر پٹخ دیا۔ بہرحال یہ زرداری صاحب نے زیادتی نہیں کی معاملہ برابر کردیا۔ پچھلا حساب برابر ہوا۔ اب نواز لیگ اور پی پی پی سیاست کو برابری کی سطح پر ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھا سکتی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024