قرآن کے قصے پڑھیں
بنی اسرائیل رب کی لاڈلی امت تھی مگر اپنی نا فرمان یوں ، ڈھٹائی اور جہالت کے سبب رب کے عتاب کا باعث بن گئی۔ اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘ تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے ‘‘۔۔۔۔۔۔’’اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لئے ہم نے درد دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔۔۔۔’’مگر جو لوگ ان میں سے علم میں پکے ہیں اور جو مومن ہیں وہ اس (کتاب) پر جو تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں (سب پر) ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور خدا اور روز آخرت کو مانتے ہیں۔ ان کو ہم عنقریب اجر عظیم دیں گے۔۔۔۔۔اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آس پاس انہیں جگہ دی۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئی۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کر دیا۔ برکت والی زمین ان کے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا۔ فرعون، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا۔۔۔ سورہ بقرہ میں بھی تفصیل سے بیان ہے کہ جانور سے متعلق خالق سے حجت نے ان پر حلال جانور حرام کر دئیے۔
‘‘اور ان پر ہم نے حرام کیاتھا ہر ناخن والا اور گائے اور بکری میں سے ہم نے حرام کی ان پر ان دونوں کی چربی مگر جو لگی ہو پشت پر یا آنت میں یا ملی ہو ہڈی کے ساتھ۔ یہ ہم نے ان کو سزا دی تھی ان کی شرارت پر اور ہم سچ کہتے ہیں(انعام) یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں، تورات کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ جو بنی اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر تورات میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں، جیسے سورہ انعام میں فرمایا کہ یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو ، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی، یہ اس لئے کہ یہ باغی، طاغی، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث (جو ان کی پرانی عادت تھی) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے، انہیں جھٹلاتے تھے، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے، اس وجہ سے ان پر بعض حلال نعمتیں بھی حرام کر دی گئیں… آج امت کو ڈر کرونا سے موت کا نہیں اپنے اعمال کی پیشی کا ہے۔ ایک سانپ اپنے زہر کی تعریف کررہاتھا کہ میراڈسا پانی نہیں مانگتا پاس بیٹھا مینڈک اس کا مذاق اڑا رہاتھا کہ لوگ تیرے خوف سے مرتے ہیں زہر سے نہیں۔ دونوں کا مقابلہ لگ گیا۔طے یہ پایا کہ کسی راہگیر کو سانپ چھپ کے کاٹے گا اور مینڈک سامنے آئے گا۔دوسرے راہگیر کو مینڈک کاٹے گا اور سانپ سامنے آئے گا۔اتنے میں ایک راہگیر گزرا اس مسافر کوسانپ نے چھپ کے کاٹا جبکہ ٹانگوں سے مینڈک پھدک کے نکلا۔راہگیر مینڈک دیکھ کے زخم کھجا کے تسلی سے چل پڑا خیر ہے مینڈک ہی تھا کیافرق پڑتا ہے۔دونوں اسے دور تک جاتا دیکھتے رہے وہ صحیح سلامت چلا گیا۔دوسرے راہگیر کو مینڈک نے چھپ کے کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کے سامنے آگیا۔مسافر دہشت سے فوری مر گیا۔دنیا میں ہرروز ہزاروں افراد مرتے ہیں جن کو دیگر امراض ہوتے ہیں یاکوئی بھی مرض نہیں ہوتا جبکہ کرونا کی شرح اموات اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔مسلمان موت سے نہیں ڈرتا آگے کی پیشی سے ڈرتا ہے۔