پہلے تو دو تین اہم خبریں۔ بھارت میں وزیر اعظم مودی نے پورے ملک میں تین ہفتے کے لاک ڈائون کاا علان کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی ملک میں تین ہفتے کا لاک ڈائون نافذ کر دیا ہے۔ بھارت میں ڈاکٹروں اور نرسوں کو اہل محلہ نے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ان کے ہاں سے نکل جائیں کیونکہ وہ ہسپتالوں سے اپنے ساتھ وائرس لا کر محلے میں پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کرونا ایسی بیماری ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ صرف احتیاطی تدابیر کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ کرونا سے بچنے کے لئے کیا کچھ کیا جانا چاہئے۔ اس پر ہر شخص اپنی رائے دے رہا ہے اور بلا سوچے سمجھے دے رہا ہے۔ میری رائے ہے کہ میڈیا پر کرونا کے سلسلے میں ڈاکٹر زاور صرف ڈاکٹرز کو بولنے کی اجازت ہونی چاہئے اور ڈاکٹروں کو بھی براہ کرم ملک گیر باہمی مباحثے کے بعد ان تدابیر پر زور دینا چاہئے جوان کے نزدیک متفق علیہ ہوں۔ مولوی کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر مسئلے پر بٹے ہوئے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کرتے ہیں ۔ ڈاکٹروں کا تو کوئی فرقہ نہیںہوتا بلکہ کوئی مذہب بھی نہیں ہوتا، اس لئے وہ ان تمام چٹکلوں پر اپنی حتمی رائے دیں جو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بیان کئے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ گرم پانی پیو۔ دوسری را ئے ا ٓ جاتی ہے اسکا کوئی فائدہ نہیں ۔ ایک کہتا ہے کہ بھاپ لو۔ دوسرا کہتا ہے کرونا پر یہ بے اثر ہے، ٹرمپ نے کہہ دیا کہ ملیریا کی دوائی لے لو۔ عالمی ا دارہ صحت نے اس سے منع کر دیا اور نائجیریا میں ا س دوائی نے مریضوں کی حالت مزید بگاڑ دی۔ کوئی کہتا ہے کہ پینا ڈول سے بھی اکثر مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں دوسرا کہتا ہے کرونا کی دوا ابھی ایجاد ہی نہیں ہوئی۔ کوئی کہتا ہے موسم میں حدت پیدا ہو گی تو کرونا وائرس تلف ہو جائے گا۔ دوسرا کہتا ہے کہ افریقہ اورآسٹریلیا کے گرم علاقوں میںبھی کرونا پھیل رہا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ عام بیماریوں میں ہسپتالوں کا رخ نہ کریں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہسپتال کس مرض کے لئے بنے ہیں۔ کسی خاتون کو بچہ پیدا کرنا ہے تو کہاں جائے۔ کسی کے سینے میں درد اٹھی ہے تو کہاں جائے۔ کسی کے گردے یا پتے میں درد ہے تو کہاں جائے۔ ظاہر ہے یہ مریض ہسپتالوں میں ہی جائیں گے تو کرونا کا شکار تو ہو سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو ہو کہ پہلے قدم میں ہسپتالوں کو محفوظ بنائیں۔ مگر دنیا کی کوئی حکومت ایساکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لئے عام آدمی سے کہا جاتا ہے کہ گھر بیٹھو مگر گھر میں چودہ دن قرنطینہ کے بعد پتہ چلے کہ سبھی گھر والے موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں تو اس مشقت کا بھی کیا فائدہ۔ کسی نے کہہ دیا ہے کہ گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھو کیونکہ یہ وائرس ہوا میں اڑ کر آپ کے صحن یا بر آامدے تک پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے یہ نری افواہ ہے ۔میں اسی لئے کہتا ہوں کہ ایک تو موجودہ فضا میں سوائے ڈاکٹروں کے کسی کو بولنے کی اجازت نہ ہو اور ڈاکٹروںنے بھی بولنا ہے تو براہ کرم پہلے کوئی اتفاق رائے پیدا کر لیں ۔ اور عالمی ادارہ صحت کی کوئی سند پیش کریں۔ یہ بھی واضح کیا جائے کہ 1166کی ہیلپ لائن پر کتنے لوگ دیوٹی دے رہے ہیں ان میں ڈاکٹر کتنے ہیں اورٹرخانے والے کتنے ہیں۔
ایران پکار رہا ہے کہ اس پر پابندیاں ختم کی جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان مطالبہ کر چکے ہیں کہ ایران سے پابندئیاں ہٹائی جائیں تاکہ وہ کرونا سے لڑنے کے لئے کچھ تو عالمی مارکیٹ سے خرید سکیں مگر امریکہ ایک نہیں سنتا، پاکستان کہتا ہے کہ کرونا ہی کے پیش نظر بھارت اسی لاکھ کشمیریوں کو قید سے رہا کرے مگر بھارت نہیں سنتا۔ یہی عالم رہا اور اقوام عالم نے یک جہتی کا مظاہرہ نہ کیا تو خدا نخواستہ کرونا کا قہر پھیلتا چلا جائے گا۔
مگر رکئے ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے۔ کرونا کو تین ماہ ہو گئے ۔ ہم نے اپنے ڈاکٹروں کے لئے کتنی حفاظتی تدابیر اختیار کیں۔ گلگت میں ایک ڈاکڑ جان سے گیا، ایک ڈاکٹر سکھر میں تڑپ رہا ہے ۔ ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی گائون کہاں ہیں۔ ہم نے عام لوگوں کے لئے کتنے ماسک در آمد کے۔ کتنے سینی ٹائزر درا ٓمد کئے اور کتنے ونیٹی لیٹر در آمد کئے ۔ اگر کچھ منگوایاگیا ہے تو اسے ایک ویب سائٹ پر لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کیاجائے اور جو نہیں منگوایا گیا، اس کی درا ٓمد کا بلا تاخیر انتظام کیا جائے ۔ ملک میں جن لوگوںنے ماسک ا ور سینی ٹائزر ذخیرہ کر لئے ہیں وہ خدا کا خوف کریں اور خلق خدا پر رحم کریں اپنے گوداموں کے تالے کھولیں اور ملک کی ہر فارمیسی پر ماسک، سینی ٹائزر ، ڈیٹول اور لائف بوائے تو سپلائی کیے جائیں۔ تاکہ ہر شخص اپنے محلے سے ضرورت کی یہ چیزیں خرید سکے۔ کھانے پینے کی اشیا بھی وافر مقدار میں محلے کی دکانوں تک پہنچائی جائیں اور پرانی قیمتوں پر فروخت کی جائیں۔ منافع کمانا ہے تو ضرور کمائیں مگر اس وقت جب دنیا کرونا سے محفوظ ہو جائے۔ بیماری سے خوفزدہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ میڈیا کا کردار بے حد اہم ہے۔ میں میڈیا سے کہتا ہوں کہ وہ وزیر صحت سے سوال نہ کریں کہ لوگ لاک ڈائون کی پابندی کیوںنہیں کرتے۔ یہ سوال آئی جی پولیس یا ڈی جی آئی ایس پی آر سے کریں جو لوگوں کو گھروں میں بٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح وزیر صحت سے یہ بھی نہ پوچھیں کہ ذخیرہ اندوزی کیوں ہو رہی ہے۔ یہ سوال وزیر خوراک سے پوچھیں۔
اور یہ جو اپوزیشن اٹھک بیٹھک دکھا رہی ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ چار ماہ کہاں تھے اور اب اچانک کونسا نسخہ کیمیا ہاتھ لگ گیا ہے ۔ ڈینگی اور قسم کی وبا تھی، کرونا نے تو دنیا بھر کی حکومتوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے اوربے بس کر دیا ہے ۔جب عالمی طاقتیں گھٹنے ٹیک چکی ہیں تو ہماری اپوزیشن کی وڈیو لنک کانفرنس کس کام کی سوائے یہ تاثر دے کہ حکومت درست اقدامات نہیں کر رہی۔ یہ سراسر سیاست بازی ہے سیاست کرنی ہے تو بعد میں کر لی جائے۔ ا سوقت سراج الحق کی تجویز پر غور کیا جائے کہ لوگوں کے گھروں میں پندرہ روز کا راشن سپلائی کیا جائے۔ اس ملک کے عوام بڑے فراخدل ہیں۔ ہر قدرتی آفت میں وہ بڑھ چڑھ کر صدقہ خیرات ا ور زکواۃ ادا کرتے ہیں اور لوگوں کے دکھ بانٹتے ہیں۔اب بھی ان لوگوںکا ضمیر جاگ رہا ہے، زلزلے اور سیلاب میں کسی سیاسی پارٹی نے وڈیو لنک کا ڈرامہ نہیں رچایا تھا ۔ ویسے اسوقت ایک فلاحی اور مخیر جماعت کی قیادت قید میں ہے پھر بھی مجھے اس قوم کی زندہ دلی پر ناز ہے۔ وہ کسی حاجت مند کوتنہا نہیں چھوڑیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بڑے پیکیج کااعلان کیا ہے۔ اس کا جائزہ اگلے کالم میں ۔
ان شا اللہ!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024