مجاہد پاکستان پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد بھی رفیق الاعلیٰ کے پاس چلے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ وہ ان معدودے چند بزرگوں میں سے ایک تھے جنہیں 23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک(گریٹر اقبال پارک) میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اُس جلسے میں بطور طالبعلم شرکت کا اعزاز حاصل تھا جس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ اس وقت ان کی عمر محض 13برس تھی۔ بعدازاں اُنہوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے قیام پاکستان کیلئے شب و روز جدوجہد کی جس کے اعتراف میں قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے انہیں ’’مجاہد پاکستان‘‘ کی سند عطا کی۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد سرتاپا پاکستان کی محبت میں سرشار تھے۔ بظاہر تو ماہر معاشیات تھے مگر اصلاً ماہر پاکستانیات تھے۔ اُنہوں نے خود کو نسل نو میں جذبۂ پاکستانیت پروان چڑھانے کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ ساری زندگی کوشاں رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اُنہوں نے اپنی حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال، بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے فکر و عمل کی ترویج و اشاعت میں بسر کیا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ان رہنمائوں سے ان کی وابستگی انتہائی مضبوط‘ نہایت گہری تھی۔ وہ صدق دل سے سمجھتے تھے کہ وطن عزیز کو درپیش گوناں گوں چیلنجز سے بخوبی عہدہ برآء ہونے کے لئے ان رہنمائوں کے افکار سے از سر نو رجوع ناگزیر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ امامِ صحافت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سابق چیئرمین محترم مجید نظامی کے نہایت قریبی دوست تھے۔ ان ہی کے اصرار پر اُنہوں نے 1999ء میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اسے ایک قومی نظریاتی ادارے کی صورت عطا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔2008ء میں وہ اس ادارے کے وائس چیئرمین کے منصب پر فائز ہوئے۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کی عمر اگرچہ 92برس تھی تاہم وہ نوجوانوں جیسے جذبوں اور ولولوں کے مالک تھے۔ ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان میں منعقدہ تقریبات میں جب صدارتی یا کلیدی خطاب کے لئے انہیں دعوت دی جاتی تو وہ سٹیج پر اپنی نشست سے اظہارِ خیال کی بجائے روسٹرم پر جاکر خطاب کرنے کو ترجیح دیتے اور کہتے کہ حاضرین میں نسل نو کی کثیر تعداد دیکھ کر ان میں بھی جوانوں جیسا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوگئی ہے۔ ٹھیک تین سال قبل 25مارچ 2017ء کو انہیں ایک شدید جسمانی عارضہ لاحق ہوامگر اُنہوں نے بے پناہ قوت ارادی اور بلندحوصلگی سے اس پر قابو پالیا اور کچھ ہی عرصہ بعد پہلے والے جذبے اور توانائی سے قومی خدمات میں مصروف ہوگئے۔ گزشتہ ماہ 12ویں سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس میں بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا اور اُنہوں نے ضعیف العمری کے باوجود روسٹرم پر کھڑے ہوکر تفصیلی خطاب کیا جس کے دوران ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔ بلاشبہ ان کی ذات ہر اس پاکستانی کے لئے سرچشمۂ فیض تھی جو اس ملک کو حقیقی معنوں میں قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کا پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کا شمار نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے عظیم الشان منصوبے ’’ایوانِ قائداعظم‘‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس منصوبے سے ان کی قلبی وابستگی تھی اور وہی اسے عملی جامہ پہنانے والے تھے۔ وہ اسے افکار قائد کے ابلاغ کا عالمی مرکز بنانے کے متمنی تھے اور اس سلسلہ میں آخر دم تک بڑے متحرک رہے۔ قائداعظم کے سچے پیروکار کی طرح وہ بھی اس مملکت خداداد کو تحفۂ خداوندی اور حضور پاکؐ کا روحانی فیض سمجھتے تھے اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے محنت کرنے کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب پاکستان قائم ہوا تو ہم نے صفر سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ہم مادی وسائل سے تہی دامن تھے۔ پورے ملک میں صرف ایک ہی پنجاب یونیورسٹی تھی مگر آج 72سال گزر جانے کے بعد ہم دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہیں۔ اگرچہ ہمارے ازلی بدخواہ بھارت نے اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی ملی بھگت سے ننگی جارحیت کے ذریعے 1971ء میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ کردیا مگر موجودہ پاکستان پوری شان شوکت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہم مطلوبہ تکنیکی صلاحیت اور وسائل میں کمی کے باعث ان سے بھرپور استفادہ نہیں کر پائے۔ ہمارے پاس ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا وژن اور ایک زبردست نظریہ موجود ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے آئین و قانون کے ہتھیاروں اور ووٹ کی طاقت سے حصولِ پاکستان کی جنگ جیتی‘ لہٰذا وفاقِ پاکستان کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ یہاں جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے۔ جس حق خودارادیت کی بنا پر پاکستان آزاد ہوا‘ وہ بعد ازاں دنیا کی دیگر محکوم اقوام بالخصوص مسلمان ممالک کے لئے بھی آزادی کی نوید ثابت ہوا۔ ہمیں چاہیے کہ پاکستان کی عظمت اور اہمیت کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرلیں اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کا وصال ایک زرّیں عہد کا خاتمہ ہے۔ امریکہ میں مقیم ان کے اکلوتے فرزند ڈاکٹر فواد احمد نے جس تن دہی سے ان کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کی دیکھ بھال کی اور بار بار امریکہ سے ان کی تیمار داری کے لئے پاکستان آتے رہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تابع فرمان اور خدمت گزار اولاد ہر انسان کو نصیب کرے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے ورکرز ان کی محبت و شفقت کو کبھی فراموش نہ کرپائیں گے۔ وہ تکریم انسانیت کے قائل تھے‘ چنانچہ ہر کسی سے بڑی عزت و احترام سے پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔ وہ بہت غریب پرور تھے۔ چپکے چپکے نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹتے تھے۔ خدائے لم یزل سے دعا ہے کہ انہیں مقام علّیین میں جگہ عطا فرمائے‘ ان کے لواحقین کو صبر جمیل اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے کارکنان کو ان آدرشوں پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے جنہیں سربلند رکھنے کے لئے وہ تاحیات جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی نماز جنازہ ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان کے سامنے واقع مادرِ ملت پارک میں آستانۂ عالیہ علی پور سیداں شریف صاحبزادہ پیر منور حسین شاہ جماعتی نے پڑھائی جس میں ان کے ہم عصروں‘ شاگردوں اور نیاز مندوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی جس کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کے اس جانثار سپاہی کو ان کی وصیت کے مطابق ان کی رہائش گاہ کے قریب واقع میاں میر پنڈ کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
(اقبال)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38