اسامہ شہید ہوگیاانسانیت بچاتے بچاتے
کروناوائرس سے متاثراِن زائرین کوجو مسئلے درپیش ہیں ہم اسے دیکھنے کی کوشش کریں گے اگرانہیں مزیدٹریٹمنٹ چاہیئے توہم انہیں سول یاڈی ایچ کیوکی طرف لے جائیں گے،لیکن اگریہاں ان کابہترعلاج ہوسکتاہے توہم بھرپورکوشش کرکے یہاں پران کاعلاج کرائیں گے،انشاللہ بہترہوجائیں گے،یہ الفاظ تھے کروناوائرس کے مریضوں کوبچاتے بچاتے انسانیت کیلئے اپنی جان دینے والے ڈاکٹراسامہ ریاض کے۔ ڈاکٹر اسامہ کاتعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامرکے علاقے چلاس سے تھایہ والدین کے دوسرے بیٹے تھے،انہوں نے ابتدائی تعلیم چلاس سے حاصل کی بعدازاں گلگت سے انٹرمیڈیٹ کے بعدڈاکٹربننے کاخواب دل میں لیے بہاولپورمیڈیکل کالج کی طرف گامزن ہوئے ،یہ ایف ایس سی کے بعدامریکہ بھی جاناچاہتے تھے اورواپس آکرزندگی قوم کے نام صرف کرنابھی چاہتے تھے لیکن شایدتقدیر کوکچھ اورہی منظوتھا،بہاولپورمیڈیکل کالج سے فارغ ا لتحصیل ہونے کے بعدیہ گلگت پی پی ایچ آئی میں میڈیکل آفیسرکی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے لگے،ان کومنصب پرفائزہوئے لگ بھگ ایک سال کاہی عرصہ گزراتھا،گزشتہ دنوں چین کے شہرووہاںسے کروناوائرس پھیلاناشروع ہوا،یہ وائرس پھیلتے پھیلتے اب تک دنیاکے 192ملکوں میں داخل ہواہے،جس کی وجہ سے 14000سے زائدلوگ مو ت کے منہ میں چلے گئے ہیں،یہ پاکستان کے گلے پربھی آکھڑاتھا،ایران میں کروناوائرس پھیلتے ہی زائرین نے پاکستان کاسفرشروع کیا،تاہم حکومت نے انہیں تفتان پرروک لیا،آپ حکومت پاکستان کاکمال دیکھیں انہوں نے تفتان میں ہزاروں لوگوں کوایک ساتھ قرنطینہ میں رکھااورران کے ٹیسٹ کاکوئی نظام بھی نہیں تھا،یوں یہ وائرس پھیلنے لگا،زائرین میں گلگت بلتستان کے لوگ بھی شامل تھے انہوں نے بھی واپسی کی را ہ لے لی،اسامہ جانتے تھے اگریہ وائرس گلگت بلتستان میں جہاں پرکوئی سہولیات بھی نہیں اگرپھیل گیاتو وہ سروائیونہیں کرپائیں گئے،یہ دن رات مریضوںکی خدمت میں مگن ہوگئے ، انہیں پتہ بھی نہیں تھاکہ یہ بیماری انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی،یہ دن بھرخدمت میں مگن رہے شام کوجب گھرپہنچے تواچانک بے ہوش ہوکرگرپڑے،گھروالوں نے ہسپتال منتقل کردیا،ان کاکروناٹیسٹ لیاتومثبت آیا،تب تک بہت دیرہوچکی تھی وائرس ان کے جسم میںپنجے گاڑچکے تھے،گلگت ہسپتال میں نیوروسرجن موجودتھے اور نہ ہی سی ٹی اسکین مشین کی سہولت موجودتھی،وقت کی نزاکت کودیکھتے ہوئے انہیں اسلام آبادشفٹ بھی نہ کیا جاسکا،دودن زندگی اورموت کی کشمکش میں رہنے کے بعدقوم کایہ عظیم فرزندانسانیت بچاتے بچاتے انسانیت کے نا م پرقربان ہوگیا،اورقوم ایک عظیم اوربے لوث خدمت سے سرشارنوجوان سے محروم ہوگئی۔اسامہ توچلے گئے لیکن یہ ہمیں درس دے گئے کہ ملک وقوم پرجب مصیبت آ پڑتی ہے تورنگ ،نسل ،مذہب کودیکھے بغیرہرکسی کواسامہ بنناچاہیئے،یہ درس ہمیں انسانیت بھی دیتی ہے اورہمارادین بھی۔میرے مطابق ملک میں کروناکے پھیلائومیں حکومت کاکرداربھی کسی سے کم نہیں،تفتان بارڈرپرزائرین کوایک ساتھ رکھنا،ان کوسہولیات فراہم نہ کرنا،وہاں پران کے ٹیسٹ منفی جب کہ اپنے علاقوں میں پہنچنے کے بعدانکی رپورٹ مثبت آنا،ان سب میںکہیں نہ کہیں حکومت کی نااہلی چھپی ہوئی ہے،اوران سب کی ذمہ دارحکومت وقت ہے۔بہرحال اس وباسے بچنے کاراستہ شہروں کولاک ڈاو ن کرانااورشہریوں کوگھروں تک محصورکراناہے،اوریہ چین نے کردکھایاہے،ہمیں بھی انکی ترغیب پرعمل کرناچاہیئے،تاکہ اس وباسے محفوظ رکھ سکیں اوراسامہ جیساکوئی دوسراسرمایہ اس راہ میں قربا ن نہ ہوسکے۔میری عوام سے بھی گزارش ہے کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پرعمل کرنے کی بھرپورکوشش کریں اسی میں آپ کافائدہ ہے،اوراسی پرعمل کرتے ہوئے آپ کروناسے بچ کربہترزند گی جی سکتے ہیں۔