مرد بحران ''مراد علی شاہ'' سب پر بازی لے گئے
کورونا وائرس کی تباہ کاری کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے 3ارب سے زائد افراد اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں،کچھ ممالک میں کرفیو، کئی لاک ڈاون اور کہیں عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی ہے،یورپ سے لیکر ایشیا، شمالی امریکا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں حکومتوں نے اپنے شہریوں کو گھر میں رہنے کی ہدایات کی ہیں اور اس فیصلے میں برطانیہ اور بھارت بھی شامل ہوگئے ہیں۔کورونا وائرس سے دنیا بھر کے 196ممالک و ٹیریٹریز میں 20ہزار سے زائد افراد ابتک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیس چار لاکھ پچاس ہزار سے بڑھ گئے ہیں۔دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جہاں وائرس سے 7503 ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے۔وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا براعظم یورپ ہے جہاں 2لاکھ سے زائد کیسز سامنے آئے اور 10ہزارسے زائد ہلاکتیں دیکھی گئیں، یورپ کے مقابلے میں ایشیامیں ایک لاکھ سے زائد کیسز دیکھے گئے۔ کورونا وائرس کے کیسز کے حوالے سے امریکا تیسرے نمبر پر آگیاہے۔ ادھردنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں اور متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ٹوکیو اولمپکس 2020 کو ملتوی کرکے اگلے برس کرنے کا اعلان کردیا گیا۔سعودی عرب نے کورونا وائرس کے سبب ملک میں پہلی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے جبکہ ملک میں اب تک 767افراد وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا نے ملک میں فوج کی تعیناتی کا اعلان کیاہے، فوج تعیناتی کے دوران چیک پوائنٹس پر مسافروں اور راہ گیروں میں وائرس چیک کریگی۔کورونا وائرس کے خطرے نے پاکستانی قوم کو ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے جس سے پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔ اس عالمگیر وبا نے تقریباً پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس چیلنج پر جلد قابو پانے اور جانی و معاشی نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے قومی یکجہتی اور اتفاق ناگزیر ہے۔ کورونا کی وبانے عالمی سطح پر کتنی خوفناک شکل اختیار کر لی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت اس کے مقابلے کے لئے تقریبا پوری دنیا میں لاک ڈائون ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز میں سے 78 فیصد کی ٹریول ہسٹری ایران کی ہے۔یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کورونا وائرس پہلے چین میں پھیلا۔ چین کے صوبہ ووہان میں خاصے پاکستانی طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت نے ان طالب علموں کو ملک واپس نہیں لانے کا فیصلہ کیا۔ منطق یہ تھی کہ طلبہ پاکستان آئیں گے تو ممکن ہے ان میں سے کوئی کورونا وائرس کا کیریئر نہ بن جائے جس سے ملک میں کورونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ اس بناء پر ان طلبہ کو وہاں ہی رکھا جائے اور چینی حکومت انکی مناسب دیکھ بھال کرے۔ جب ایران میں کورونا سے تباہی پھیلنا شروع ہوئی تووفاقی حکومت نے ووہان کے حوالے سے اپنی طے کی ہوئی پالیسی سے یو ٹرن لیتے ہوئے ایران گئے ہوئے زائرین کو وہیں رکھ کر علاج کرانے کے بجائے انہیں ملک میں داخل کرنے کی پالیسی اختیار کی۔حفاظتی طور پر تفتان میں وفاقی حکومت نے 5 ہزار افراد کو قرنطینیہ میں رکھنے کے نام پر مقید کیا مگر حکومت نے قرنطینیہ کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردیا۔ وفاقی حکومت نے جن ڈاکٹروں کو تفتان بھیجا تھا وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ وزارت صحت کی جانب سے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کے لیے تفتان میں لیباریٹری بھی نہیں بنائی، یوں ایران سے آنے والے جو زائرین کورونا کا شکار نہیں ہوتے تھے وہ اس کیمپ میں موذی امراض سے متاثر ہوئے جبکہ ایران سے آنے والے زائرین میں سے ہی کچھ کورونا وائرس کے کیریئر بن گئے اور انہوں نے ہی پاکستان میں صورتحال ابتر کردی۔وفاقی حکومت کی نااہلی اور بروقت درست فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس سنگین صورتحال کے نتیجے میں رونما ہونے والے خطرات کو سب سے زیادہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے محسوس کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سب سے پہلے فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت دیگر صوبوں کی حکومتیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں اور وفاقی حکومت شاید اس بات کاانتظار کررہی تھی کہ حالات کو پہلے خراب ہونے دیا جائے۔یہ بات اب بالکل عیاں ہو چکی ہے کہ ایران سے متصل سرحد اور ملک کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر آنے والے مسافروں کی اسکیننگ کے لیے معیاری انتظامات نہیں کیئے گئے جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔سندھ حکومت نے ہی سب سے پہلے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی۔ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد جب یہ معلوم ہوا کہ لیباریٹریوں میں کورونا وائرس کا پتہ چلانے کی سہولت ہی موجود نہیں تھی تووزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر حکومت سندھ نے فوری طور پر تین اسپتالوں کی لیب میں یہ سہولت فراہم کی۔ چین کے تجربے کی روشنی میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مرض کے متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنا ناگزیر ہوتا ہے اس لیے ممکنہ طور پرکورونا وائرس کے متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے اسپتالوں میں انتظامات بھی کیئے گئے۔ سندھ وہ پہلا صوبہ ہے جس نے اس عالمی وبا کی ہولناکی کا ناصرف پورا ادراک کیا بلکہ اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ممکنہ وسائل کی حد میں رہتے ہوئے ان سے نبردآزما ہونے کے لیے تیاری بھی شروع کردی،وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صورتحال کی مانیٹرنگ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اجلاس منعقد کیئے اورگزشتہ ڈیڑھ ماہ کی مدت میں سواسو کے قریب اجلاسوں کی صدارت کی جس سے ان کی سنجیدگی اور فعالیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ابتدائی اقدامات کے فوری بعد سندھ حکومت نے اس مرض کی روک تھام کے لیے مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا اور صوبے میں فوری لاک ڈائون کی تیاریاں شروع کردیں۔جیسے جیسے صورتحال خراب ہوتی گئی اور کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ذکر آگیا تووفاقی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا اور چاروں وزرائے اعلیٰ مدعو کیئے گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر ظفر مرزا نے جو اجلاس بلائے تھے، اس میں صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ نے ہی شرکت کی تھی دیگر صوبائی حکومتوں کے سر براہان نے اس وقت تک اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ وفاقی حکومت کے ناقص انتظامات کی بناء پر وائرس کے کیریئر مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے۔ ماضی میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی قیادت میں ’’سائیں سرکار‘‘ نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔سید مراد علی شاہ نے وقت اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے جو اقدامات کیئے پورے ملک میں ان اقدامات پر بعد میں عمل کیا گیا۔سید مراد علی شاہ نے ایک فرنٹ لائن صوبے کی حیثیت سے اس’’قدرتی آفت‘‘ کا مقابلہ کیا جس کا مقابلہ عالمی سپر پاور نہیں کر پائی اور آج امریکا دنیا میں اس عالمی وبا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا تیسرا ملک بن چکا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چین نے جس تیزی سے اس وبا پر قابو پایا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔پاکستان میں جس طرح براہ راست متاثر ہونے ولا صوبہ ہونے کے باوجود ’’سائیں سر کار‘‘ نے جس تیزی اور حقیقت پسندی کے ساتھ اقدامات کیئے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی دوسرے صوبے میں بھی نظر نہیں آتی۔سندھ ہی وہ صوبہ ہے جس نے سب سے پہلے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 3ارب روپے کا فنڈ مختص کیا۔یہ سندھ حکومت ہی تھی جس نے سب سے پہلے کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر پاک فوج سے مدد مانگی تھی۔اس حوالے سے حکومت سندھ نے وفاقی وزارت داخلہ کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول ایڈمنسٹریشن کی مدد کے لیے افواج پاکستان کو تعینات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔سندھ حکومت کے بروقت اقدامات کا ہی نتیجہ ہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد میں کمی آنے لگی ہے۔وقت کے ساتھ علاج کی بہتر سہولیات اگر میسر آتی رہیں اور وسائل کی کمی پوری ہوتی رہی تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ سندھ میں صورتحال جلد معمول پر آجائیگی۔اس مشکل وقت میں سید مراد علی شاہ نے خود کو مرد بحران ثابت کرتے ہوئے جن قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ان سے جہاں سندھ حکومت کی قیادت کے لیے ان کا انتخاب درست ثابت ہوتا ہے وہیں مستقبل میں ان سے کئی توقعات بھی وابستہ کی جا سکتی ہیں۔سندھ حکومت کی صحت کے شعبہ اور خاص طور پر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فعال کردار سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اچھی طرز حکومت، کرپشن کے خاتمہ اور میرٹ پر فیصلوں کو اہمیت دے تو سندھ ایک مثالی صوبہ بن سکتا ہے۔حالیہ بحران خدا کرے جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچے اور چین کی طرح پاکستان میں بھی اس ’’وبا‘‘ پر مکمل قابو پا لیا جائے تو ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے اور عوام الناس کے تحفظ کے لیے سندھ حکومت نے سخت فیصلے کیئے۔مستقبل میں سندھ حکومت اسی طرز پر اگر صوبے سے بیروزگاری، جہالت، غربت، کرپشن اور دیگر برائیوں کے خاتمے کے لیے بھی سخت فیصلے کرے اور عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے تو سندھ کے عوام کی بھر پور تائید حاصل کی جا سکتی ہے۔سید مراد علی شاہ نے صوبے میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی کہ اگر پاکستانی عوام آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ملک گیر سطح پر موقع دیں تو مراد علی شاہ میں وہ اہلیت ہے کہ وہ وفاقی سطح پر بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کر سکتے ہیں۔