وزیراعظم عمران خان کا مکمل لاک ڈائون پر پارلیمانی لیڈر ز ویڈیو کانفرنس میں بھی تحفظات کا اظہار
وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں اپوزیشن کا ’’ان پٹ‘‘ لینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم مل کر ہی یہ جنگ جیت سکتی ہے‘ کوئی حکومت اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتی۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینٹ میں سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کی زیرصدارت منعقد ہونیوالی پارلیمانی لیڈرز ویڈیو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈائون کے معاملہ پر کنفیوژن ہے۔ ہمیں ٹرانسپورٹ بند کرنے والا لاک ڈائون ابھی نہیں چاہیے کیونکہ ٹرانسپورٹ کی بندش سے ملک میں مختلف مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی بھی متاثر ہوگی اور ساری انڈسٹری بند ہو جائیگی۔ انکے بقول کرفیو کی صورت میں ہمیں لوگوں کو گھروں میں کھانا پہنچانا پڑیگا۔ ہمیں مشاورت کرنی چاہیے اور چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے‘ لاک ڈائون کے معاملہ میں سندھ بہت آگے چلا گیا ہے‘ اس سے ہماری تعمیراتی صنعت متاثر ہوگی۔ انہوں نے کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے حکومت کی جانب سے اب تک کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کی تجاویز اور آراء لی جائیں گی اور حکومت سب کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔ اس ویڈیو کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میاں شہبازشریف‘ مشاہداللہ خان اور خواجہ محمد آصف اور پیپلزپارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹر شیری رحمان نے شرکت کی تاہم جب عمران خان اپنے خطاب کے بعد اٹھ کر چلے گئے تو میاں شہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ قدرتی آفت کرونا وائرس سے نمٹنے اور اس کا پھیلائو روکنے کیلئے پوری دنیا اور تمام عالمی قیادتوں کو فکرمندی لاحق ہے کیونکہ اس سے انسانوں کی زندگیاں بچانا مقصود ہے۔ آج کی صورتحال میں سب کی یہی اولین ترجیح ہے کہ کرونا وائرس کے آگے بند باندھنے کا جو بھی اقدام ممکن ہو سکتا ہے‘ وہ اٹھا لیا جائے چونکہ اس وائرس کے سدباب کی ابھی تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہو پائی اس لئے اس سے بچنے کا فوری ممکنہ اقدام انسانوں کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع کرنے کا سوچا گیا ہے تاکہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل نہ ہونے پائے۔ اس کیلئے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک سمیت تمام متاثرہ ممالک نے مکمل لاک ڈائون کی پالیسی ہی طے کی ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ چین نے اسی پالیسی کے تحت بالآخر کرونا وائرس پر قابو پالیا ہے اس لئے ہمیں بھی بہرصورت اسی پالیسی کی طرف جانا ہے۔ بے شک کرفیو جیسے مکمل لاک ڈائون سے ملک اور عوام کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا جس کی وزیراعظم عمران خان نشاندہی کررہے ہیں تاہم عوام کو کرونا وائرس کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کیلئے وقتی مسائل برداشت کرنا پڑیں گے جس کیلئے قوم تیار بھی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد گیارہ سو سے بڑھ گئی ہے اور گزشتہ روز راولپنڈی میں بھی ایک خاتون کرونا وائرس کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئی ہے۔ اگر اس وقت مکمل لاک ڈائون جیسے فوری احتیاطی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس کا پھیلائو روکنا یقیناً ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ میں اٹلی اور سپین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں کرونا وائرس سے ہلاک شدگان کی تعداد چین سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ امریکہ میں بھی اس وائرس سے ہلاک ہونیوالوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس لئے حکمت و تدبر کا یہی تقاضا ہے کہ انسانی زندگیاں بچانے کو فوقیت دی جائے۔
مکمل لاک ڈائون سے ممکنہ طور پر پیدا ہونیوالے اقتصادی اور خوراک کی قلت کے مسائل اور اسی طرح بے روزگاری بڑھنے کے خدشہ پر وزیراعظم کی فکرمندی بجا ہے کیونکہ اس وقت پنجاب میں جزوی لاک ڈائون سے بھی یہ مسائل سامنے آرہے ہیں جن سے عہدہ برأ ہونے کیلئے وزیراعظم نے مجموعی 880‘ ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی مناسب کمی کردی گئی ہے تاکہ غریب عوام کو موجودہ ہنگامی صورتحال میں مہنگائی سے کچھ ریلیف مل سکے۔ اسی طرح گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے بھی اپنے اجلاس میں لاک ڈائون کے دوران امدادی سامان گھروں تک پہنچانے اور اس کیلئے رضاکار فورس اور فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو موجودہ صورتحال میں بروقت اور مناسب ترین اقدامات ہیں۔ اگر مکمل لاک ڈائون کے دوران جس میں لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہونے کی بہرصورت ضمانت مل جائیگی‘ حکومتی سطح پر اسکے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کی جانب سے لوگوں کو گھروں میں اشیائے خوردونوش اور ادویات فراہم کرنے کا تسلی بخش اہتمام ہو جاتا ہے جس کیلئے افواج پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی مکمل تعاون پر آمادہ ہیں اور عملی اقدامات اٹھا بھی رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کو اشیائے خوردونوش کی فراہمی ممکن نہ ہوسکے۔
وزیراعظم کی جانب سے آئندہ تین ماہ کیلئے ملک کے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو ماہانہ تین ہزار روپے ادا کرنے کا بھی بندوبست ہوچکا ہے جس سے بہرحال بے روزگاری میں کچھ نہ کچھ ریلیف ملتا رہے گا۔ وزیراعظم کو اس حوالے سے قومی سیاسی قائدین کو بہرحال اعتماد میں لیتے رہنا چاہیے۔ اگر قومی جذبے کے ساتھ حکومتی سیاسی قائدین اور تمام قومی ریاستی ادارے موجودہ آزمائش کی گھڑی میں یکجہت اور یکسو ہو کر مکمل لاک ڈائون کو کامیاب بنائینگے اور ضرورت مندوں کی دستگیری کرینگے تو کوئی وجہ نہیں کہ کرونا وائرس کے چیلنج میں ہم سرخرو نہ ہو سکیں۔ یقیناً زندہ قومیں ہی کرونا جیسی آزمائشوں میں سرخرو ہوتی ہیں۔