جمعۃ المبارک‘ 2 ؍ شعبان 1441ھ‘ 27 مارچ 2020ء
متاثرین کرونا کی عجیب فرمائشیں کھیلنے کے لئے لڈو‘ تاش اور ویڈیو گیمز مانگنے لگے
ہم لوگ نجانے کس مٹی کے بنے ہیں۔ گرچہ مبتلائے رنج ہیں۔ مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود بھی ہمارے ناز و نخروں میں کمی نہیں آئی۔ اب ان مریضوں کو ہی دیکھ لیں جو مبتلائے کرونا ہیں۔ اب بجائے اس کے کہ وہ قرنطینہ میں یا آئسولیشن وارڈز میں موجود ہیں یہاں بھی وہ خدا کو یاد کرنے اسکی رحمت کو پکارنے کی بجائے۔ اپنی تفریح طبع کے لئے فارغ وقت گزارنے کے لیے انتظامیہ سے دعاؤں کی کتابیں منگوانے کی بجائے لڈو، تاش، ویڈیو جیسے شیطانی مصروفیات کی فرمائشیں کر رہے ہیں۔ یہ وہ آزمائش ہوتی ہے جس میں بندہ خدا کو یاد کرتا ہے۔ اسکی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ خلوص دل سے توبہ کرتا ہے اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے۔ مگر ہمارے یہ مبتلائے کرونا بڑے دل گردے والے ہیں کہ انہیں خوف خدا ہی نہیں۔ ابھی لغویات میں مصروف رہنا چاہتے ہیں۔ یہ لہو ولہب ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ مگر وہ انسان ہی کیا جسے خوشی اور غم میں خدا یاد نہ رہے۔ ابھی وقت ہے زندوں کو بھی اور مریضوں کو بھی اپنے رب سے رجوع کرنا چاہیے تا کہ اس مشکل وقت سے جلد از جلد نجات ملے۔ ورنہ یاد رکھیں…؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
اسلیے اپنے ہونے کی قدر کریں اور اپنی صحت و سلامتی کے لیے ہر وقت دعا گو رہیں۔
٭…٭…٭
برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس بھی کرونا کا شکار ہو گئے۔
اب اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ کرونا وائرس عذاب الہٰی کا وہ چابک ہے۔ جو بلا تفریق سب پر برس رہا ہے۔ سب کی چمڑی ادھیڑ رہا ہے۔ عام لوگوں کا ذکر کیا کریں۔ ان کے پاس تو عام نزلہ و بخار سے بچاؤ کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ وہ بخار و نزلہ کا علاج ڈسپرین سے کرتے ہیں۔ زیادہ طبیعت خراب ہوئی تو قہوہ پی لیا۔ آخری مرحلے میں ہسپتال سے یا نیم حکیم سستے قسم کے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔ وہ اگر کرونا کا شکار ہوں تو زیادہ تعجب نہیں ہوتا۔ تعجب تب ہوتا ہے جب نہایت محتاط زندگی بسر کرنے والوں کو جنہیں ہر طرح کی طبی سہولتیں اور وسائل مہیا ہوتے ہیں۔ جن کے اردگرد کا ماحول اور طرز زندگی نہایت صاف و شفاف اور طبی لحاظ سے محفوظ ہوتا ہے۔ جب وہ بھی کرونا کا شکار ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ سب انسان بلاتفریق مذہب وملت ایک ہیں۔
وبائیں‘ بلائیں اور آفات ان سب پر یکساں طریقے سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ اب برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس جیسا صاف شفاف بہترین محفوظ طرز زندگی خوراک لباس اور رہن سہن کس کا ہو سکتا ہے۔ مگر دیکھ لیں تمام تر حفاظتی انتظامات و اقدامات کے باوجود وہ بھی کرونا کا شکار ہو گئے ہیں۔ حالانکہ ملکہ برطانیہ کا سارا خاندان اس وقت محفوظ ترین قرنطینہ میں ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں جب اس کی پکڑ ہوتی ہے تو پھر کوئی بچ نہیں سکتا۔
سپین میں 500 سال بعد اللہ اکبر کی صدائیں گونج اٹھیں
سپین خون مسلم کا امین۔ مسلمانوں کے عہد رفتہ کی عظمت شان وشوکت اور جبروت کا وہ درخشاں نشان ہے۔ جسے مٹانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود قرطبہ رشبیلا اور غرناطہ جیسے شہرہ آفاق آثار و صفادیہ مسلمانوں کی اس خطہ ارض سے محبت کی گواہی دے دہے ہیں۔ طارق بن زیادہ کے ہاتھوں فتح ہونے کے بعد اس اجڈ ملک کو مسلمان بادشاہوں نے حقیقت میں ملک خداداد بنا دیا تھا۔آج بھی سپین میں قدم قدم بکھرے مسلمان سلاطین کے بنائے محلات، بازار، باغات، عرب طرز تعمیر گواہی دے رہا ہے کہ یہ ملک کبھی مسلمانوں کا عروس البلاد تھا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا یہ دوبارہ عیسائی سلطنت بنا تو انہوں نے سپین سے مسلمانوں اور انکے تمام نشانیوں کا صفایا کر دیا۔الحمراء کا محل، مسجد قرطبہ سمیت تمام مساجد گرجوں میں بد ل گئیں۔ اذان پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر آج کرونا کی تباہ کاریوں سے متاثرہ ممالک میں سپین سر فہرست ہے۔ وہاں آباد مسلمانوں نے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر بالکونیوں سے نکل کر اس وبا سے نجات کے لیے جب اذانیں دیں تو سپین میں 500 برس پہلے والا منظر نظر آنے لگا۔ سپین کے شہرایک بار پھر اللہ ذوالجلال و الکرام کی واحدانیت اور نبی کریمؐ کی رسالت کی گواہی سے گونج اٹھے۔ آج سرزمین سپین کے سینے پر ایک بار پھر وہی صدائے حق گونج رہی ہے جس نے صدیوں پہلے اس کے مقدر کا ستارہ چمکا کر اسے دنیا کا تاج بنا دیا تھا۔
٭…٭…٭
کرونا کے باعث معددم ہوتا معاشرتی نظام پھر جگہ بنانے لگا
دور جدید میں نت نئے ذرائع ابلاغ ،مواصلاتی نظام اور آلات رابطہ کی بدولت انسان کی سماجی سرگرمیاں محدود سے محدود ہو گئی تھیں۔ باہمی میل جول، گفتگو، ملاقاتیں کچھ اس طرح سمٹ گئی تھیں کہ ایک چھت کے تلے رہنے والے بھی تقریباً تقریباً ایک دوسرے سے اجنبی ہونے لگے تھے۔ پہلے ریڈیو اور ٹی وی تھا تو سب خاندا ن والے اسکے اردگرد جمع ہو جاتے پروگرام دیکھتے اظہار خیال کرتے۔ پھر وی سی آر آیا تو جلوت کی جگہ خلوت نے لے لی۔ پھر اس کے بعد چل سوچل کیبل آیا، نیٹ آیا، موبائل آیا، لیپ ٹاپ آیا تو انسان جو سماجی جانور تھا وہ تنہا پسند حیوان بن گیا۔ جسے دیکھو ہاتھ میں موبائل تھامے اپنی دنیا بسائے اس میں مگن نظر آنے لگا۔ لوگ ایک دوسرے سے اجنبی بن گئے۔ ماہرین نفسیات تک چیخ اٹھے کہ یہ خطرناک طرز زندگی انسان کو تباہ کر دے گا مگر سنتا ہی کون تھا۔ اب اچانک کرونا نے ایسا سر اٹھایا کہ باہر نکلنا بند ہو گیا۔ آمدورفت کے ذرائع بند ہو گئے۔ گھروں سے نکلنا تک محال ہو گیا تو گھر کے بچھڑے لوگ ایک چھت تلے یکجا ہونے کی وجہ سے ایک بارپھر مل جل کر بیٹھ رہے ہیں۔ باہمی گفتگو کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ باہمی رابطے بڑھ رہے ہیں۔ یوں ایک بار پھر معاشرتی زندگی میں وہی چہل پہل نظر آ رہی ہے۔ جو کبھی پہلے نظر آتی تھی۔ لوگ فون پر رشتہ داروں اور دوستوں سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ جن کی آواز سننے کو کان ترس رہے تھے اب وہ بھی گھنٹوں بک بک کرتے ہیں اور لوگ سن کر لطف لیتے ہیں۔