جب کرپشن ، منی لانڈرنگ کی بات تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دور میں ہوئی اور حزب اختلاف نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ، تحریک انصاف کے لیڈران یا وزیر اعظم کی ہمشیرہ کی جائیدادوںکے حوالوں سے بات کی تو تحریک انصاف کے تمام لاوڈ اسپیکر ز کا بیانیہ یہ تھا کہ وہ حکومت میں نہیںرہے ، احتساب انکا ہوتا ہے جو حکومت میں رہے ہوں ایک معقول بیانیہ تھا مگر یہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے احتساب پر بھی لاگو ہونا چاہئے تھا مندرجہ بالا سوچ تحریک انصاف کی تو ہوسکتی ہے ہر طرف سے آزاد میڈیا ٹرائل کرنے والے احتساب ادارے کو پسند نہیں اسلئے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی بلاول بھٹو احتساب ادروںکے چکر کاٹ رہے ہیں بقول تحریک انصاف کے احتساب عدالتیں انکے کنٹرول میں نہیں اس بیانیہ کی گواہی کے طور پر تحریک انصاف کے اہم رہنماء سابق سینئر وزیر علیم خان احتساب عدالت کی بدولت جیل میںہیں ۔ اسلئے یہ ماننا پڑے گا کہ احتساب عدالتوںپر حکومت کا کنٹرول نہیں، انہوں نے اپنے انداز میںاپنا کام جاری رکھنا ہے چاہے بریگیڈئیر(ر) اسد منیر کی طرح مزید لوگ بھی اپنی تذلیل کے خوف سے خودکشیاںکرلیں۔سپریم کورٹ بھی نیب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرچکی ہے۔اس سے اعلی تو کوئی ادارہ ملک میں بچتا نہیں ۔ دوسری جانب پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا یہ خیال ہے کہ نیب کی پشت پر حکومت ہے اسکے لئے اسوقت حکومت کے خلاف تحریک و احتجاج کی باگ ڈور پی پی پی نے سنبھال رکھی ہے ، پی پی پی حکومت کو بہت مشکل میں ڈالنے کے درپے ہے اور مولانا فضل الرحمان سے بار بار ملاقاتیں کررہے ہیں اسلئے وہ حکومت کو مشکل ڈالنے کے معاملے پر سنجیدہ نظر نہیں آتے ، مولانا فضل الرحمان اس سلسلے میںکیا مدد کرسکتے ہیں ؟حکومتی کارکردگی کے متعلق پہلے بھی تحریر کیا تھا کہ حکومت کی پوری لاٹ میں وزیر اعظم عمران خان کا چیک اینڈ بیلنس کا انداز ملک کو بہتری کی طرف لیجا سکتا ہے ، انہوں نے اب اپنے وسیم اکرم ( عثمان بزدار ) کے اس ابتدائی دور کو جس میں میڈیا کا سامنے آنے سے وہ پریشان ہوتے تھے اب وہ عثمان بزدارکی اس صورتحال کو سابق وزیرا عظم میاںنواز شریف سے ملانے لگے ہیں سوچنے کی یہ بات ہے وزیر اعظم کی رائے میاں نواز شریف کے متعلق جو آج ہے کہیں وزیر اعلی اسطرف نہ چلے جائیں ، عمران خان کی کرپشن سے پاک پاکستان میں انکی اپنی ذاتی کاوشوںکی وجہ سے وہ امید ہے اسطرف نہیں جائینگے۔ بیرونی دنیا سے رابطے ، دوست ممالک کے مطلوبہ امداد ، مستقبل قریب میں پاکستان میں سرمایہ کاری وغیرہ وغیرہ ان نکات پر حکومت نے اپنی خاطر خواہ گرفت کرلی ہے ، اسٹیٹ بنک سے قرضہ وغیرہ لینا یہ عام معاملات ہیں ہر حکومت لیتی ہے ۔ تمام تر امداد کے بعد بھی تاحال پاکستان کے عوام اس سے مستفیض نہیں ہوسکے ہیں ، اسکے لئے بڑی کاوشوں کی ضرورت ہے، جب تک عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری سے نجات نہیں ملے گی اسوقت اسے خوشحال پاکستان کہنا زیادتی ہوگی ۔حکومتیں جب انتخابات کی طرف رجو ع کرتی ہیں تو انکے پاس اپنی پالیسیاںہوتی ہیں، جو عوام کو بتائی جاتی ہیں مگر بد قسمتی سے انتخاب میں تشہیر تحریک انصاف کی اپنی پالیسوں کی نہیں بلکہ غیر ممالک میں رکھی پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تھی مگر ایسا کچھ نہ ہوا دانشور سمجھتے تھے ( بعض ٹی وی اینکرز نہیں ) کہ یہ انتخابی نعرے ہیں ، عوام کم تعلیم اور مسائل پر قابو پانے لئے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر تمام انحصار ہوا ،جس میں کچھ نہ ہوسکا ، ایک روپیہ واپس نہ آسکا ماسوائے ملک ریاض سے چار سو ارب سے زائد حکومت کو واپسی ہوئے ، نوکریاںناپید ہیں، مہنگائی کی کوئی حد نہیں ، مکان مل نہ سکے بلکہ خاص طور پر کراچی میں بے شمار لوگ بے گھر ہوگئے ، وغیرہ وغیرہ ۔۔ ا ب حکومت یقینا عوام کے مسائل پر توجہ دے گی ، اور جو وعدے انہوںنے عوام کی فلاح بہبود کے کئے تھے اپنی پالیسیاںایسی مرتب کرنا ہونگی ، ہم تو کہہ رہے تھے کہ ہم ورلڈبنک کے چنگل سے آزاد ہوجائینگے ، مگر ورلڈ بنک نے ’’ سو سال کا پاکستان ‘‘نامی پروگرام دے دیا ہے اس میں چمڑی عوام کی ادھیڑی جائے گی جب تک آمدنی کے ذرائع پیدا نہیں کئے جاتے چاہے وہ صنعتوں کو جال ہو یا برآمدات ۔IMF سے نجات کا راستہ تحریک انصاف کی حکومت نے ڈھونڈا تھا بڑی ایمانداری سے ، اور دوست ملک کی طرف ہاتھ بڑھایا اور الحمداللہ دوست ممالک جو ہمیشہ ہماری مدد کو تیار رہتے ہیں انہوں نے ہماری مشکلات کو آسان کردیا اب ضرورت اس بات کی IMF کے سامنے مثبت سر ہلانے کے بجائے انکی ناجائز شرائط پر منفی سر ہلایا جائے ۔ دوست ممالک کی امداد نے ہمیں ventilator سے اٹھاکر کھڑا کردیا اب ملک کو معاشی طور صحیح سمت لیجانے کی باری حکومت کی معاشی پالیسوںکی ہے ۔جو تعین کرینگی کہ ہم نے خزانہ خالی خانے ہونے ، مہنگائی کا تحٖٖفہ دینے ، بے روزگاری سے فراغت حاصل کرنا ہے یا نہیں ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38