خودکشی یا قتل ‘ڈی سی گوجرانوالہ کی موت کا معمہ کیسے حل ہوگا
سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
78ویںیوم ِپاکستان کی صبح ہونے میں‘ ابھی چند گھنٹے باقی تھے کہ23مارچ 2018 یہ ملال بھری خبر لایا کہ ریاست کے ایک قابل افسر ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل ٹیپو نے خودکشی کر لی ہے، گوجرانوالہ سے یہ خبر سامنے آنے کے بعد ‘دوسوالات نے جنم لیا، ایک سوال ڈپٹی کمشنر کے قتل کے بارے میں ہے، تو دوسرا سوال خودکشی سے تعلق رکھتا ہے۔ نوائے وقت کرائم کارنر نے پچھلے چار دنوں سے اِن سوالات کا جواب جاننے کے لئے تحقیق کی ‘ تومعلوم ہوا اِن دو سوالات کے علاوہ تیسرا سوال بھی غورطلب ہے۔یہ تیسرا سوال ، ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکامی کے بارے میں ہے، یہ بھی پتہ چلا کہ سہیل ٹیپو کو کچھ احکامات نہ ماننے پر اوایس ڈی بنائے جانیکا خوف تھا،سہیل ٹیپو ایک ایماندار افسر تھے، پچھلے چند ماہ میں، ان کی گوجرانوالہ میں تعیناتی کے بعد علاقے میں کافی حدتک وہ جرائم کنٹرول ہوئے،جن پر قابو پانے کیلئے انہیں قانونی دسترس حاصل تھی، تاہم بعض ذرائع کے مطابق ایسے کچھ عوامل بھی ہیں جن پر وہ دبائو کا شکار تھے،جو ابھی زیر تحقیق ہیں۔تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ریاست کے بہت سے ایماندار افسر،جوجرم کے کسی واقعہ میں براہ راست ملوث نہیں ہوتے، یا وہ ایماندارافسرجو ناجائز احکامات پر عمل نہیں کرنا چاہتے ، وہ اُس وقت او ایس ڈی بنائے جانے کے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں،جب وہ شہریوںکوامن وامان کا ماحول دینے کے لئے اپنے فرائض احسن و قابل مثال طریقے سے ادا کر رہے ہوتے ہیں،اس بارے میں تازہ ترین مثال لاہور کی ہے، جہاں پولیس کے ایک قابل ومحنتی ایس پی صدر فیصل شہزاد بھی، کسی جرم کے براہ راست مرتکب نہ ہونے کے باوجود، او ایس ڈی بنائے جانے کی ناانصافی کا شکار ہوئے ،آئی جی پنجاب کو اپنے ایسے افسروںکاحوصلہ نہیں توڑناچاہئے،جلد بحال کرنا چاہئے۔
پہلا سوال’’ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کو قتل کیا گیا‘‘،سب سے پہلے اس پر شبہ کااظہار ، سہیل احمد ٹیپو کے ماموں محمد اکرم نے کیا ، آئیے پہلے وہ وجوہات دیکھتے ہیںجس کی وجہ سے محمد اکرم اپنے بھانجے سہیل احمد ٹیپو کی موت کو قتل تصور کرتے ہیں، اس کے لئے ہم وہ ایف آئی آرپڑھتے ہیں ، جس میں اسلام آباد کے رہائشی محمد اکرم طاہر کا یہ بیان ہے’’ میرا بھانجا سہیل احمد ٹیپو جو کہ بطو ر ڈی سی گوجرانوالہ میں تعینات تھا آج صبح مجھے سہیل کی امی نے اطلاع دی کہ سہیل احمد ٹیپو اپنے کمرہ میں مردہ حالت میں پنکھے کے ساتھ لٹکا پایاگیا ہے، اطلاع ملنے پر میں فوراً ڈی سی ہائوس گوجرانوالہ پہنچا میں نے دیکھا کہ میرا بھانجا سہیل احمد ٹیپو مردہ حالت میں اپنے کمرہ میں ہے اس کے دونوں ہاتھ پیچھے سے باندھے گئے ہیں اور گردن میں تار اور چادر لپیٹی ہوئی تھی میرے بھانجے کو نامعلوم افراد نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ناحق قتل کردیا ہے ، میں درخواست پیش کرتا ہوں کہ سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کر کے قانونی کارروائی کی جائے‘‘۔ محمد اکرم نے نوائے وقت کرائم کارنر سے گفتگو کے دوران ،کسی شخص کا شبے میں نام نہیں لیا، تاہم جب ہم نے اُن سے ’’او ایس ڈی ‘‘ والا معاملہ اُن کے سامنے رکھا تو ، انہوں نے او ایس ڈی کے معاملہ کو ڈپٹی کمشنر کی اپنی خواہش کے ساتھ تسلیم تو کیا، مگر یہ بتاکر کہ سہیل ٹیپو خود او ایس ڈی بننا چاہتے تھے، آپ چیف سیکرٹری سے اس بارے میں پوچھ سکتے ہیں کہ وہ خود او ایس ڈی بننا چاہتے تھے، اس سوال پر کہ کوئی افسر خود او ایس ڈی کیوں بننا چاہے گا؟ تو وہ اس بات کا جواب نہ دے سکے، تاہم فرانزک رپوٹ میں خودکشی سامنے آنے پربھی ریاست کو اس سوال کا جواب دینا پڑیگاکہ اس کا ایک لائق افسر خود کیوں او ایس ڈی بننا چاہ رہا تھا؟۔
مرنے والے کے ماموں کی جانب سے اٹھائے گئے قتل کے اس سوال پر غور کیاجائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی بات یہ کہ اِن کے ماموں نے اپنے بیان میں کسی پر شک کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی مرنے والے کے ماموں نے اپنے بیان میں کہیں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ اس قتل (اِن کے مطابق )کے وقت اُن کی چیخیں کسی نے کیوں نہیں سنیں؟ اگر مرحوم کوموت کے وقت اپنی درد بھری آواز نکالنے کی ، قاتلوں نے مہلت نہیں دی، تو کوئی نہ کوئی آلہ قتل تو برآمد ہونا چاہئے؟ بے ہوش کرنے کی کوئی پراڈکٹ ؟ قاتلوں کے ہاتھوں کے نشان ؟کیاگردن پہ تنی ہوئی رسی پر کسی نامعلوم ہاتھ کا کوئی سراغ نکلا ہے؟پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں پر لپٹے ہوئے آزار بندپر انگلیوں کے نشان مرحوم کے یا کسی اورنامعلوم انگلیوںکے ہیں؟ جس آزار بند سے ان کے ہاتھ پیچھے باندھے گئے ، کیا وہ اُن کے موجودہ پہناوے سے تھا، یایہ بھی کوئی نامعلوم لایاتھا؟اگر اپنا نہیں تھا توپھراِن کے موجودہ پہناوے میں کیا تھا؟کیا ڈپٹی کمشنر کے کمرے میں کوئی پہلے سے ہی موجود تھا؟ کیوں ڈپٹی کمشنر نے ’’قتل‘‘ کی اِسی رات اپنے ماں باپ کو یہ بتایا کہ پریشان مت ہوئیے گا ، چھت پہ بکری آئی ہوئی ہے،یہ بکری کون ہے ؟ کیا گوجرانوالہ کی پولیس اس ’’بکری‘‘پر تحقیقات کر رہی ہے؟کیا گوجرانوالہ کی پولیس کا عملہ، جو ڈپٹی کمشنر کے گھر تعینات تھا، اُنہوں میں سے کسی نے چھت پر ’’بکری‘‘ کو دیکھا؟یہ وہ سوالات ہیں جو مرنے والے کے ماموں نے تو اپنے بیان میں نہیں اُٹھائے، مگر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اِن سوالات پر تحقیقات کرے، اور ان کو انصاف دے ۔ مگرتحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ سہیل احمد ٹینشن کا شکار تھے،یہ دو ابہام ’’فرانزک رپورٹس‘‘ ہی دور کر سکتی ہیں، ابھی فرانزک رپورٹ آئی نہیں ہے،حقائق کیلئے رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔
دوسرا سوال ڈپٹی کمشنر کی خودکشی کے متعلق ہے،تو اس بارے میں ’’نوائے وقت کرائم کارنر‘‘کے ذرائع کہتے ہیں کہ ، یہ خودکشی کی کوشش تھی۔ہمارے ذرائع کا کہنا ہے قتل کی طرف رُخ، اس لئے موڑا جارہا ہے کہ لواحقین کوخودکشی کرنیوالے سرکاری افسر کی وہ مراعات مل جائیں، جودوران ڈیوٹی موت کی وجہ سے گھر والوں کو ملتی ہیں، ایسے حالات میں مگر لواحقین مرنیوالے اُ س سرکاری افسر کی مراعات کے حصول سے محروم ہوجاتے ہیں، خودکشی کی وجہ سے جومبہم شکل اختیار کرجاتی ہے۔
اس حوالے سے ایک عام آدمی بھی اس پریشانی کا شکار ہوسکتا ہے کہ اگر اتنے اہم عہدے پر تعینات فرد کی حفاظت نہ کی جاسکی تو عام آدمی کا کہا ہوگا، اور اگر دبائو اتنے اہم شخص کو خودکشی پر مجبور کرسکتاہے تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ، حکومت اس حوالے سے کیا کرے گی یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا۔