موجودہ قومی اسمبلی کی میعاد 31 مئی کو ختم ہو گی اور نگران حکومت 60 دن کے اندر الیکشن 2018 ء کروائے گی۔ الیکشن کمشن کا امتحان ہے کہ بروقت حلقہ بندیوں کا کام مکمل کر لے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو اپنے قول کے پکے ہیں ، بروقت الیکشن کروانے کی راہ میں حائل ہونے والے بدنیتوں کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے متوقع مقدمے بازی کو انجام تک پہنچا دیں گے۔ آرمی چیف بھی کہتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں۔ قوم کو شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کے جوڈیشل مارشل لاء سمیت کسی مارشل لاء کے خدشات اور الیکشن نومبر دسمبر میں جانے کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔
چیف جسٹس پاکستان دو ٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ میں ہوں تومارشل لاء نہیں ہے نہ اندر سے اور نہ باہر سے۔ اُن کاکہنا تھاکہ جوڈیشل مارشل لاء کا کوئی تصورنہیں ہے۔ اُن کے دوٹوک موقف کے بعد شیخ رشید نے یوٹرن لے لیا ہے۔ دراصل شیخ صاحب جیسے لوگ میاں نواز شریف کی عوامی مقبولیت سے بے حد خائف ہیں، زمانہ طالب علمی سے الیکشن کے میدان کے کھلاڑی رہنے کی وجہ سے وہ ووٹ اور ووٹر کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں نظر آ رہا ہے کہ بروقت الیکشن ہو گئے تو مسلم لیگ (ن) تمامتر برے حالات کے باوجود نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں میدان مار لے گی۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ شریف فیملی کی نئی نسل میں موجود اختلافات دم توڑ چکے ہیں۔
سانگلہ ہل میں وفاقی وزیر چودھری برجیس طاہر کی دعوت پر نواز شریف کے جلسے نے جہاں برجیس طاہر اور ایم ایس ایف کے مرکزی صدر رانا محمد ارشد ایم پی اے اور ساتھیوں کی کاوش کو عظیم الشان جلسے سے ثابت کیا وہاں مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کا سانگلہ ہل کے جلسے سے اکٹھے خطاب کرنا اُن کے سیاسی مخالفین کے لئے پیغام تھا کہ اب نئی نسل کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) میں کوئی دراڑ نہیں رہی۔ دونوں بہن بھائیوں کے اکٹھے سیاسی جلسوں میں خطاب سے شریف برادران اور ان کی اگلی نسلوں میں اختلافات کی کہانیاں دم توڑ چکی ہیں۔ البتہ پرویز رشید اور چودھری نثار علی خان کے درمیان بیان بازی سے مسلم لیگی حلقے خاصے بد مزہ ہو رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اِن دونوں کے درمیان ہونے والے اختلافی بیانات پر بالکل اسی طرح چپ سادھے ہوئے ہیں جس طرح ماضی میں وہ اپنے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اور پریس سیکرٹری صدیق الفاروق کے درمیان اختلافات پر خاموش رہتے تھے، خاصا تماشا لگ جانے کے بعد صدیق الفاروق کو پریس سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا کر ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیاتھا۔
مخدوم جاوید ہاشمی اور چودھری نثار علی خان کے درمیان سیاسی مخاصمت کی بھی یہی داستان ہے۔ جناب نواز شریف اس پر بھی خاموش رہے۔ خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان کے درمیان بات چیت تک بند ہو گئی لیکن میاں صاحب نے مداخلت نہیں کی۔ حتیٰ کہ اُن کے قریبی عزیز چودھری شیر علی اور پنجاب حکومت کی جان رانا ثناء اللہ خان کے درمیان جیسے تعلقات ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جناب نواز شریف اپنی عادت سے مجبور ہیں اور لوگ نت نئی کہانیاں بنا لیتے ہیں۔
بہرحال سینیٹر پرویز رشید اور چودھری نثار علی خان کی چپقلش میاں شہبازشریف کیلئے مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ چودھری نثار علی خان ایک قدآور سیاستدان ہونے کے ناطے مسلم لیگ اور میاں شہبازشریف سے تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کریں تو بہتر ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کا نقصان ان سب کا اجتماعی نقصان ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کا صدر بننے کے بعد میاں شہبازشریف نے پارٹی کی تنظیم نو کرنے کا ارادہ کیا تھا اور پارٹی قائد نوازشریف نے صوبوں میں نئے تنظیمی ڈھانچے لانے کی منظوری دی تھی‘ لیکن قبل اس کے اس جانب کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا‘ میاں شہبازشریف لندن چلے گئے۔ بلاشبہ ان کے نجی دورے کا مقصد خود کا میڈیکل چیک اپ کروانا اور اپنی بھابی بیگم کلثوم نواز کی عیادت کرنا تھا کہ ان کے بڑے بھائی نوازشریف اور بھتیجی مریم نواز کو احتساب عدالت نے چند دن کیلئے لندن جانے کی اجازت نہیں دی جس سے ماحول میں مزید تلخی پیدا ہوئی ہے۔
فطری بات ہے کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ سو مسلم لیگ (ن) کے حامی تلخ بیانی کریں تو اسے برداشت کرنا چاہئے۔ ایک ایسے وقت جب میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کے بیانیے کو ان کے سیاسی مخالفین فوج اور عدلیہ سے ٹکرائو قرار دے رہے تھے بلکہ ان اداروں کے خلاف سازش کا الزام بھی لگا رہے تھے‘ اس وقت میاں شہبازشریف نے فوج‘ عدلیہ اور سیاستدانوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کی تجویز پیش کی بلکہ وہ یہاں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انہوں نے اپنے قائد نوازشریف کو بھی اس حد تک قائل کر لیا کہ خود نوازشریف نے اداروں سے بات چیت پرآمادگی ظاہر کی تو ان کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور انہوں نے اس نئی صورتحال کے خلاف بیان بازی شروع کر دی کہ کہیںحالات سدھر ہی نہ جائیں جن حالات کو انہوں نے آنے والے الیکشن میں انتخابی مہم کا حصہ بنانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا محترمہ بینظیر بھٹو نے 1997ء کے عام انتخابات کے محض تین ماہ بعد مئی 1997ء میں لاہور کے مال روڈ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ تجویز پیش نہیں کی تھی کہ ملک کے سیاسی نظام کی کچھ حقیقتیں تسلیم کر لینی چاہئیں اور نوازشریف اگر حکومت چلانا چاہتے ہیں تو فوج‘ خفیہ ایجنسیوں‘ عدلیہ اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم کریں۔ اس وقت ان کی اس تجویز پر سب حیرت زدہ رہ گئے تھے‘ لیکن 20 برس بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے سیاسی مخالفین بھی اس نتیجے پر ہی پہنچے ہیں کہ جمہوریت کی بقاء کیلئے اداروں کو آن بورڈ لینا ضروری ہے۔ شہبازشریف نے ملک و قوم کو عدلیہ‘ پارلیمنٹ‘ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان ٹکرائو کی سی پیدا شدہ صورتحال سے نکالنے کیلئے راستہ بنانے کی بات کی تو کیا بُرا کیا؟
پاکستان میں انتشار کی فضا کیا سرمایہ کاروں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہی؟ کیا دہشت گردی کا جن بوتل سے سر نہیں ٹکرا رہا اور بوتل سے باہر آنے کو بے تاب نہیں؟ معاشرے کو افراتفری سے بچانے کیلئے شہبازشریف کی تجویز بروقت ہے اور اسے نوازشریف کی تائید حاصل ہونا مزید خوش آئند ہے۔
نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین ان کو سیاسی میدان میں شکست دینے کیلئے تیاریاں کریں۔ کسی ادارے کا سہارا لیکر الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کی منفی سوچ ترک کر دیں اور اگر الیکشن 2018ء سے چند ماہ کیلئے بھی راہ فرار اختیار کی گئی تو اچھا نہیں ہوگا۔دودھ کا جلا چھاچھ ھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ قوم جنرل ضیاء الحق کے 90 دن کے الیکشن کروانے کے وعدہ توڑنے کے انجام کو ابھی تک نہیں بھولی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024