سیاستدانوں کے جرائم اور کرپشن پکڑی جائے تو بقول سیاستدانوں کے ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ مقدمات بن جائیں یا جیل جائیں تو ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور سادہ لوح ووٹروں سے ہمدردی کے ووٹ بٹورتے ہیں۔ بیمار ہو جائیں تو عیادت کے ووٹ‘ مر جائیں تو تعزیت کے ووٹ۔ یعنی سیاستدان اپنی بدنامی تباہی بربادی کو مزید کیش کرا سکتا ہے۔ باقی مخلوق کو یہ سہولت میسر نہیں۔ سیاست مین قیادت کی موت یا سزا موروثیت کو مزید طاقت بخشتی ہے۔ ہمدردی اور تعزیت کے ووٹ ضروریات زندگی، صاف پانی، مساوی نظام تعلیم و صحت پر غالب ہیں۔ اس عوام کو بھوک پیاس سے مر ہی جانا چاہئے جو اپنے بنیادی حقوق کا اپنے ووٹ سے قتل کرتے ہیں، بیورو کریسی الزامات و مقدمات کی زد میں آجائیں تو ان کی زندگی مستقبل سب تباہ ہو جاتا ہے، ان کے خلاف سازش بھی ہو تو لب کھولنے کی حیثیت میں نہیں رہتی۔ بیماریاں، موت، سزائیں، بدنامی سیاستدانوں کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔ سیدھا سادھا صاف ستھرا سیاستدان پاکستان کی سیاست میں ناکام ہے۔ پاکستانی سیاست کے اس شرمناک کلچر میں سیاست و صحافت کا گٹھ جوڑ افسوس ناک کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت لوٹ مار دھوکہ عیاشی ہو چکی۔ اب سیاسی مافیاز کی رگوں سے زہر نکالنے کا وقت آگیا ہے۔طاقت کا نشہ ملک سے غداری میں ملوث پایا جائے تو رعونت کا سر کچلنا ہی پڑتا ہے۔سیاست کی دنیا میں مزید پندرہ بیس برس یہی چہرے اور ان کی نسلیں باریاں لیتی نظر آ رہی ہیں۔ پاک فوج اور پاکستان کی ایجنسیاں دنیا میں طاقتور ادارے سمجھے جاتے ہیں۔ کرپٹ مافیاز انہیں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکیورٹی ادارے کمزور ہو گئے تو پاکستان خاکم بدہن دشمن کے لئے تر نوالہ ہے۔لندن میں جب دل کا آپریشن کرانے آپریشن تھیٹر جا رہے تھے تو آخری فون کال نریندر مودی کو کی تھی۔ مودی چائے والا غریب آدمی تھا اور آج بھی اس کی بوڑھی بیمار ماں سرکاری کھاتے میں لندن علاج کرانے نہیں جا سکی۔ راتوں رات کھرب پتی بننا فقط پاکستانی اداروں میں ممکن ہے۔ سکیورٹی اداروں کے پاس خفیہ غداری و بغاوت کی فائلیں اگر عوام کے سامنے کھول دی جائیں تو غیور محب وطن عوام کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔۔۔۔ جن لوگوں کا عزت سے کچن چل رہا ہو اور ہوس و نفس کے حرص سے آزاد ہوں‘ سیاستدان ان کی زبان اور قلم سے خائف رہتے ہیں۔ پاکستان میں ضد اور ہٹ دھرمی کی سیاست کا کلچر رائج ہو چکا ہے۔ الا ماشا اللہ جن لوگوں کا کچن حکمرانوں کی خوشامد پر چلتا ہے وہ حکمرانوں کی خوشامد کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن سچ نہیں بولتے۔ جبکہ زمینی حقائق اور ملکی مفاد اس کے متضاد مطالبہ کرتے ہیں۔ اقتدار کی لڑائی میں پاکستان کے وقار کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ کسی کا سر نگوں نہیں ہے کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ مایوس تب ہوتے ہیں جب آپ کو لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ مگر میرا اللہ وہ ہے جو صحراﺅں میں آب زم زم نکال دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ایمان ہاجرہ و ابراہیم زندہ ہو، ہجوم پاکستان کو نہ قوم بننا آیا نہ سر نگوں ہونے کا سلیقہ آیا۔ مسلمان کہلاتے ہےں لیکن مسلمانی کا بھرم بھی نبھانا نہ آ سکا۔ اپنے سر جھکاﺅ، اپنی جماعتوں کے پرچم سر نگوں کرو…. میرا وطن نہ شرمسار ہے نہ گناہگار۔ البتہ شرمندہ ہے تو اس ہجوم پر جو اس کی چھاتی پر عیش و عشرت کر رہا ہے، دولت کے دکھاوے کا مقابلہ، پروٹوکول، بڑی بڑی گاڑیاں، محل نما گھر، گارڈز، اسلحہ کی نمائش، وی آئی پی کلچر کی کھلی عیاشی، مزے تو پاکستان میں رہنے والے امیر طبقہ کے ہیں۔ قبضہ مافیا، سیاسی مافیا، مذہبی مافیا، بزنس مافیا…. ان میں کسی کا نہ سر نگوں ہوتا ہے نہ عیش میں کمی آتی ہے۔ اس کی چھاتی پر کیسے کیسے ناسور عیاشی میں مست ہیں۔افسردہ ہے کہ کیسے کیسے نو دولتیے اس کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور کیسے کیسے آج اس کا سودا کر رہے ہیں، کبھی ترقی کے نام پر اورکبھی خوشحالی کے نام پر یہ ملک صرف ان لوگوں کا ہے جن کے پاس اس ملک کے علاوہ کوئی راہ فرار نہیں۔ کوئی دوسرا گھر بار نہیںکوئی اور ٹھکانہ نہیں۔ انہیں تو جینے دو،کہاں جائیں گے۔ الاماشاءاللہ ہجوم کا ہجوم ظالم مظلوم ہے۔ مظلوم نے بھی کسی نہ کسی سطح پر ظلم کیا ہوتا ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے لوٹ مار میں مصروف ہے۔۔۔۔اگر فائلیں کھل گئیں تو عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024