سود؛ اللہ اور اسکے رسول ؐ سے جنگ …(1 )

سودی نظام کے خاتمہ کے لئے32 برس میں اعلی عدلیہ کا یہ تیسرا فیصلہ ہے جس میں ملک کو سودی نظام سے پاک کرنے ،سود سے پاک معیشت اور بنکاری کو رائج کرنے اور سود سے متعلق تمام ملکی قوانین کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا لیکن اس فیصلے کے خلاف بھی سٹیٹ بنک آف پاکستان اور دیگر کمرشل بنکوں نے اپیل سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ میں دائر کر دی ہے کہ یہ فیصلہ بھی قابل عمل نہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بنیاد ی نکتہ ہے کہ ملک میں قراآن اور سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا ۔لیکن گزشتہ پون صدی سے اب تک ہمارے ملک کی معیشت، ہماری بنکاری، ہمارا ملکی مالیاتی نظام سود جیسی لعنت سے آلودہ ہے ایک ایسی لعنت جس کے متعلق قرآن و سنت میںسخت وعید وارد ہوئی، لیکن ہم نے اس سود کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسے قانونی تحفظ دیا اور آج اس نظام میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے اقدامات سے بھی انکاری ہو کر اللہ اور اسکے رسول ؐکے غیض وغضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خاتمہ سے متعلق پہلا فیصلہ 14نومبر1991کو صادر کیا جس میں سود سے مکمل خاتمہ اور ملکی معیشت کو بتدریج سود سے پاک کرنے کے لیئے حکومت کو باقاعدہ ڈیڈ لائن دی گئی ، لیکن اس ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کی بجائے حکومت نے ایک کمرشل بنک کے کندھوں پر بندوق رکھ کر سود کے خاتمے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ میں چیلنج کر دیا۔یہ اپیل 8 سال تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہنے کے بعد 23
دسمبر1999کوشریعت ایپلٹ بنچ نے ان اپیلوں کو مسترد کردیا اور وفاقی شرعی عدالت کا اولین فیصلہ برقرار رکھا جس میں سود کے خاتمہ کا واضح حکم دیا گیا تھا ۔ یعنی شریعت ایپلیٹ بنچ کا فیصلے میں بھی حکومت کو وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمہ کے اولین فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیا گیا ۔ لیکن ہماری حکومت اور مالیاتی ادارے بضد رہے کہ سود کے خاتمے کا فیصلہ قابل عمل نہیں اس لیئے (ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں کے مصداق)ایک کمرشل بنک یو بی ایل نے سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔جنوری 2000 میں دائر ہونے والی یہ نظر ثانی درخواست اڑھائی سال تک زیر سماعت رہی۔اور حکومتی وکلائ، معاشی ماہرین، بنکوں کے نمائیندوں نے بھر پور کوشش کی کہ کسی طرح سود کے خاتمہ کے فیصلے کو نا قابل عمل ثابت کر دیں ۔راقم نے ان نظر ثانی درخواستوں کی مکمل سماعت کا احوال سپریم کورٹ سے براہ راست رپورٹ کیا۔تاثر یہی ملا کہ نہ تو حکومت سود کے خاتمہ میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس نیک کام کو سر انجام دینے کے لیئے اس نے کوئی روڈ میپ تیار کیا ہے، حکومت اگرچہ ان درخواستوں میں براہ راست درخواست دہندہ نہیں تھی لیکن حکومتی وکلاء کے دلائل سن کر لگتا تھا کہ سود کا خاتمہ شاید کبھی ممکن نہ ہو سکے گا ، وفاقی حکومت نے 6 جون 2002 کوایک بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کروایا جس میں درج تھا کہ :’’حکومت پاکستان نے (سود کے خاتمہ کے) فیصلے پر عملدرآمد کے لیئے طریقہ کار اور ذرائع ڈھونڈھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن شریعت ایپلیٹ بنچ کے فیصلے کے پیراگراف 7,8اور9 عملی طور پر نا قابل عمل ہیں اور اگر انہیں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی سلامتی اور معاشی استحکام کو شدید خطرہ (رسک) لاحق ہو جائے گا‘‘۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت سب سے بڑی عدالت کولکھ کر دے رہی ہے کہ سود کے خاتمہ کا فیصلہ پر عمل ہوا تو پاکستان کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ نظر ثانی درخواست پر سماعت چونکہ آج سے بیس برس قابل ہوئی تھی ، اس وقت بلا سود بنکاری اور سود سے پاک معیشت کا نظریہ عملی طور پر مقبولیت نہیں پا سکا تھا ، اس لیئے سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے جج صاحبان جن میں دو عالم دین جج بھی شامل تھے ، وہ حکومتی وکلاء اور ماہرین کے ان دلائل سے بظاہرمتاثر ہو گئے اور متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ چونکہ درخواست دہندہ کے وکلاء نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل پیرا ہونے میں بہت سی پیچیدگیوں اور حل طلب مسائل کی نشاندہی کی ہے اس لیئے ضروری ہے کہ وفاقی شروعی عدالت اس کیس کی از سر نو سماعت کرے اور نظر ثانی کی سطح پر اٹھائے گئے نکات کو زیر بحث لاتے ہوئے از سر نو اپنا فیصلہ مرتب کرے۔ یوں 24 جون 2002 کو سپریم کورٹ کے ایپلٹ بنچ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ، وفاقی شرعی عدالت کا اولین فیصلہ اور اس پر اپیلوں کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سود کے خاتمے کا کیس از سر نو سماعت کے لیئے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا ۔یعنی جو تاریخی فیصلہ 14 نومبر 1991 کو عمل درآمد کے لیئے جاری کیا گیا ،گیارہ برس بعد اس پر کوئی پیش رفت ہونے کی بجائے دوبارہ زیرو پوائنٹ پر لاکھڑا کیا گیا۔اس فیصلے کے نتیجے میں سود ی معیشت کے خاتمہ کے لیئے کی جانے والی برائے نام کوششیں بھی رک گئیں کہ اب تو وفاقی شرعی عدالت از سر نو سماعت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔اس کے بعد تقریبا 20 سال تک یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر التواء اور زیر سماعت رہتا ہے ، وفاقی شرعی عدالت خود بھی اس غیر معمولی تاخیر کو برا گردانتی ہے اور اتنے طویل عرصہ تک اس اہم ترین نوعیت کے مقدمہ کو زیر التواء رکھنے پر کوئی ٹھوس توجیہہ بھی پیش نہیں کی۔( جاری ہے)
ورنہ اس مقدمے کو اولین ترجیح دیکر فیصلہ صادر کیا جانا چاہیئے تھا ۔لیکن کیا کیجیئے کہ ہماری عدالتی و ترجیحات بھی پروسیجرل مشکلات کا شکار ہیں ۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سود سے متعلق معاملہ جب دوبارہ واپس وفاقی شرعی عدالت میں آیا تو 11 سال تک عدالت میں اس کیس کی ایک بھی سماعت نہیں ہوئی۔یعنی جو کیس 24 جون2002 کو عدالت میں آگیااس کی پہلی سماعت وفاقی شرعی عدالت نے گیارہ برس بعد 3 جون2013 کومنعقد کی۔اور اس ایک برس صرف تین دن سماعت کرنے کے بعد ڈیڑھ سال کا تعطل آیا جس میں ایک بھی سماعت نہ کی۔اور اسی طرح بیس برس گزر گئے ۔ اس عرصہ میں اس کیس کی مجموعی طور پر 58 سماعتیں ہوئیں تب کہیں جا کر بیس برس بعد وفاقی شرعی عدالت نے ایک بار پھر سود کے خاتمے سے متعلق اپنا فیصلہ سنایا۔سود کے خاتمہ کے لیئے عدالتی ریکارڈمیں یہ اپنی نوعیت کا تیسرا فیصلہ ہے جس میں سود کی ہر شکل کو حرام گردانتے ہوئے ملکی معیشت کو اس سے پاک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(جاری ہے)