کھیلوں گا نہ کھیلنے دُوں گا

در اصل خان صاحب آرام سے بیٹھ نہیں سکتے ،ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو انہیں آرام سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی ۔دوسرا وزارت عظمیٰ کے مزے بھی انہیں یاد آتے ہیں ،یہ بھی انہیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کافر منہ سے جو لگ چکی ہے۔اب وزارت عظمیٰ جو منہ سے لگ چکی ہے ،ہٹے گی تو وقت تو ضرور لگے گا ۔ابھی مہینہ پہلے کی بات ہے جب انہوں نے بیس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے کی بڑھک مار تودی مگر بیس لاکھ تو کیا بیس ہزار بھی ایک وقت میں ایک جگہ اکٹھے نہ کئے جاسکے ۔اب ایسا کیوں ہوا یہ خان کو بھی نہیںپتہ اور جتنا پتہ چلا انہیں ،اس پر انہوں نے اس کازمہ داراپنے ایک سیٹ والے اپنے اکلوتے اتحادی شیخ رشید کو قرار دے دیا ۔بات سچ بھی تھی اگر شیخ صاحب جو ڈی چوک سے بمشکل پندرہ بیس کلو میٹر ہی کے فاصلے پر تھے اگر چاہتے تو کم از کم ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر بیس ہزار تو لا ہی سکتے تھے اور اگر بیس نہ سہی دس ہزار تو کہیں گئے ہی نہیں تھے مگر یہ دس بھی نہیں لائے ۔اب یہ کیوں نہیںلائے ؟ ۔تھوڑی جستجو کی تو یہ بات سامنے آئی کہ پی ٹی آئی نے اگلے الیکشن میں شیخ صاحب کے مقابلے میں اپنا امید وار کھڑ ا کرنے کی نیت باندھ رکھی ہے جس سے شیخ صاحب ناراض ہیں ،اور یہی وہ ناراضگی ہے جس کی وجہ سے شیخ صاحب نے اپنے سیاسی گا ڈ فادر کا بیس لاکھ کا لانگ مارچ ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔دوسری طرف پچیس مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی کی ایک اور وجہ بھی سننے میں آئی تھی اور وہ یہ کہ ڈی چوک اور اس سے ملحقہ اہم قومی عمارتوں کی حفاظت کی غرض سے فوجی دستے بھی تعینات کر دیئے گئے تھے جس سے تو خان صاحب کے پاؤں ہی اکھڑ گئے تھے ،تیسرا سب سے اہم اور نا قابل در گذر پوائنٹ یہ تھا کہ خان
صاحب جب بمشکل یو فون ٹاور کے پاس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران ہی نہیں دنگ بھی رہ گئے کہ اُن کے استقبال کیلئے وہاں کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات ،حالانکہ بڑھک انہوں نے بیس لاکھ افراد کو جمع کرنے کی ماری تھی مگر یہ کیا یہاں تو ہزار پندرہ سو سے بھی کم کی تعداد نظر آرہی تھی جنہیں دیکھ کر خان صاحب نے واپس جانے میں ہی عافیت سمجھی جو خان صاحب کا بہت عقلمندانہ فیصلہ تھا اور جو ہمارے نزدیک بھی خان صاحب کا پہلا اور آخری عقلمندانہ فیصلہ تھا جس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں آج تک اُن کی طرف سے کوئی عقلمندانہ فیصلہ سامنے آسکا ۔یہ ہم ویسے ہی نہیں کہہ رہے کہ بلکہ سچ کہہ رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنے ساتھ ہونے والے ا س ’’ سیاسی زلم ‘‘ کے باجود، جو خو د انہی کے اتحادی شیخ صاحب کی طرف سے دیدہ دانستہ کیا گیا کو یکسر بھول کراس کے بعد دوسری ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ،جو بھی بدقسمتی سے ایسی ناکام ہوئی کہ جسکا حشر دیکھ کر اگر خان صاحب کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو شائد اگلے الیکشن تک تو کسی بھی قسم کی کال دینے کا سوچتا تک نہ مگر خان صاحب کی ہمت کی داد ددیجئے کہ احتجاج کی دوسری کال کی ناکامی کے بعد اب2جولائی کی تیسری کال دے دی ہے جس کا بھی جو حشر ہوگا وہ ہم پہلے ہی بتائے دیتے ہیں کہ پہلے سے مختلف ہرگز نہیں ہوگا اور یہ کال بھی پی ٹی آئی یا چلئے ڈائریکٹ بات کئے دیتے ہیں کہ خان صاحب کے سیاسی کیرئیر کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچا بیٹھے گی جس کا انہیں اندازہ ہی نہیں ۔پی ٹی آئی سربراہ کے وزیراعظم بننے اور اس کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کے عمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں یہ حقیقت کھل کر عیاں ہوجاتی ہے کہ اُن میں سیاسی بصیرت و بلوغت کم نہیں بلکہ بہت ہی کم ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ سرے سے دِکھ ہی نہیںرہی۔یہ بات ہم اسلئے کر رہے ہیں کہ اگر خان صاحب میں یہ تمام خوبیاں ہوتیں تو جو منصب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا کیاتھا وہ منصب اِن سے چھنتا ہی نہیںاور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت بھی پوری نہ کرتے مگر افسوس کے ہوا اس کے برعکس ۔ انکے قریباً چار سالہ دوراقتدار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں وہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لیتے ہی نظر آئیں گے یا پھر لنگر خانوں کا افتتاح کرتے ہوئے دکھائی دیںگے ۔علاوہ ازیں کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ بحیثیت وزیر اعظم ملکی و ریاستی امور چلانے میں اُن کی کوئی دلچسپی نہیں تھی اسی لئے یہ امور انہوں نے سٹیبلشمنٹ کے حوالے کئے رکھے تھے جبکہ خود کو انہوں نے اپوزیشن راہنماؤں کو کچلنے کے لئے وقف کر رکھا تھا ۔رواں صورتحال میں بھی دیکھا جائے تو جب سے وہ اقتدار کے ایوان سے رخصت ہوئے یا انہیں جبری رخصت کیا گیا تب سے یہ جانتے بوجتے ہوئے بھی کہ اس وقت ملکی معاشی معاملات کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ ملک میں سیاسی استحکام کے متلاشی ہیں ناکہ سیاسی افراتفری و انتشار پیدا کرکہ ملک کی سلامتی و خود مختاری کو داؤ پر لگادیا جائے۔ مقام افسوس ہے کہ اس تمام تر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایکبار پھر انہوں نے تیسرے احتجاج کی کال دے رکھی ہے جس کا جیسے کہ ہم پہلے بتاچکے ہیںکہ حشر اس سے پہلے دی جانے والی کالوں سے مختلف ہر گز نہیں ہو گا تو ایسے میں اگر سوچا جائے کہ ،حکومت یہ، یعنی خا ن صاحب نہیں چلا سکے ، پارلیمنٹ میں یہ نہیں آنا چاہتے ،اپوزشین یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر کرنا کیا چاہتے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب خود خان صاحب ہی دے سکتے ہیں مگر جہاں تک ہمارے تجزئیے کا تعلق ہے تو ا س میں تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نزدیک تو ایک ہی مسکراتی تصویر کھچی ہے اُن کی جس میں جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ’’ خود کھیلوں گا نہ دوسروں کو کھیلنے دوں گا‘‘ ۔ بس فراتفری انتشار پھیلنا چاہیے ملک میں ، سیاسی ہویا معاشی۔کیا یہ طرز عمل ایک سابق وزیر اعظم کو زیباہو سکتا ہے ؟