کرہ ارض پر یہ سب کیا ، کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟
میں واجب القتل ہوں۔ کیونکہ میں نے انسان کے اندر بسی بے راہ روی ، بے ایمانی، بدی ، بدنیتی ، بدچلنی اور بے انصافی جیسے عیوب کو برہنہ کر کے اپنی برہنہ قلمی تلوار کی زد میں رکھا ہوا ہے۔ چھ الفاظ کا یہ چھکا اگر کسی گیم میں آ جائے تو یہ فتح ہے لیکن اگر انسان کے اندر لگ جائے تو شکست ابدی ہے۔ ہم سب انسان اہلِ کتاب ہیں۔ اس لیے آج میرے مخاطب کرہ ارض کے تمام انسان ہیں کیونکہ یہ گرم مصالحہ سب انسانوں میں موجود ہے۔ خدا تو واقعی بہت رحیم و کریم ہے کیونکہ اس نے کائنات کی اس درسگاہ میں ہم سب کے لیے ایسی نصابی کتب بھیجی ہیں جو انسان سے وابستہ اس کے تمام معاملات کا مکمل کورس ہے ہم انسانوں نے انہیں سکول بیگ میں رکھا ہوا ضرور ہے مگر غبی طالب علموں کی طرح اسے پڑھنے سے جی چراتے ہیں بلکہ اس نصاب میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کر دی ہیں ان کتب میں ایسا نصاب تھا جو انسان کے لیے ذرہ بکتر تھا تاکہ کرہ ارض میں جاری ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکے لیکن انسان نے اسے بوجھ سمجھ کر اُتار پھینکا اب برہنہ ہو کر دکھوں اور مصائب سے چیختا پھرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا میری شریعتِ حُب یہ ہے کہ تمہارے ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی حاضر کر دینا اور انہی پیروکاروں نے سارا زور ہی اسی شریعت حُب کی حکم عدولی میں لگا دیا بڑی بڑی لیبارٹریاں قائم کیں اور ان میں ایسے ایسے ہتھیار بنائے جنہوں نے انسان کے ایک گال کی بجائے پورا وجود ہتھیاروں کے طمانچوں کی زد میں رکھ دیا۔ پھر ایک ہستی کامل نبی آخر الزمانؐ ایک کتابِ کامل دے کر بھیجے گئے اُس کی شریعتِ عدل ایک زندہ معجزہ تھی جس کو اختیار کر کے ہر انسان اپنی زندگی کو کرامت بنا سکتا تھا مگر میرے علماء دین نے صاحبِ کرامت بننے کی بجائے صاحب دولت ہونا پسند کیا وہ اس کرامتی علم کے ہیرے موتیوں سے جھولیاں بھر کر بازار میں آ گئے اور تجارت کرنے لگے۔ آج یہ علماء مجلس پڑھنے اور خطبہ دینے کے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں (واضح کر دوں میں کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتی میں رسول اکرمﷺ اور حضرت علیؓ کی عاشق زار ہوں بس) بڑی بڑی مذہبی درسگاہوں کے اساتذہ گرامی نے طالب علموں کے لیے شریعتِ عدل کو ایسا گورکھ دھندا بنا دیا ہے کہ طالب علم الجھن میں گورکھ دھندے کے اس گٹھر کو درسگاہوں کی دہلیز پر رکھ کر باہر نکل گئے اور دہشت گرد بن گئے کیونکہ ان درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں نوکری نہیں ملتی اور دہشت گردی میں سودا نقد و نقد تھا۔ انسان دو اجزائے ترکیبی کا مرکب ہے جسم اور روح۔ ان اساتذہ نے انہیں جسم کی تعلیمات میں اس طرح الجھا دیا کہ دوسرا جزو انہیں بھول ہی گیا اور وہ بے توازن ہو کر لنگڑا کر چلنے لگے۔ اس طرح سائنسدانوں نے بھی صرف جسم کی سہولیات اور صحت و توانائی پر اپنا سارا علم خرچ کر دیا۔ ہوائی جہاز اور میزائل بنا کر آسمان کی بلندیوں کو چُھو آئے مگر جو ہستی رسول اکرمؐ روح کی توانائی کی بات کرتی تھی وہ صرف بات نہیں تھی انہوں نے چُھو لینے والا عمل ثابت کر دیا وہ بغیر کسی ہوائی جہاز کے اپنی روحانی اور ایمانی طاقت سے آسمانوں کو چھان کر آ گئے میرا ایک شعر ہے حضور اکرمؐ کیلئے
حد سے گزر گیا جب عشقِ خدا میں وہ
رُوبرو ہونا تو پھر ضروری تھا
انسان اگر صرف دو الفاظ کو سامنے رکھے رکھے وقت گزار دے تو میرے خیال میں وہ ہر قسم کے سکون اور صحت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور وہ دو الفاظ ہیں ’’مرض اور مرگ‘‘ یہ دو الفاظ ایسی حتمی حقیقتیں ہیں کہ بڑے سے بڑا طاقتور انسان بھی ان سے بچ نہیں سکتا۔ جب زمین و آسمان چھان لینے والا سائنسدان بیمار ہوتا ہے تو اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اُڑا سکتا اور بڑے سے بڑا حاکم مرگ کے بعد کوڑے کی طرح اُٹھا کر قبر میں پھینک دیا جاتا ہے ان حقیقتوں کو سامنے رکھنے کے بعد انسان بدی سے شروع ہونے والے چھ الفاظ کو سامنے رکھ کر کیسے زندگی گزار سکتا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ان حقیقتوں کو پائوں کی ٹھوکروں میں اڑائے رکھا۔ ایک انتہائی سبق آموز اور آنکھیں کھول دینے والی مثال ہلاکو خان کی ہے اس نے لاکھوں ا نسانوں کو اپنے طاقتور گھوڑے کی ٹاپوں تلے روند دیا تھا جو باقاعدہ زندہ جیتے جاگتے انسان تھے اُسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا لیکن جب پوچھنے کی طاقت رکھنے والا مختار کل پوچھنے پر آیا تو اپنے آپ کو خدا سمجھ لینے والا ہلاکو خان اپنے اُسی طاقتور گھوڑے کی رکاب میں پائوں پھنس جانے کی وجہ سے مرگِ عبرت کا شکار ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھوڑے کی رکاب میں پھنسا اپنا پائوں نکالنے میں اتنا بے بس ہو گیا تھا کہ میلوں تک اُس کا اپنا وفادار گھوڑا گھسیٹتا ہوا دوڑتا رہا۔ ایسی کتنی ہی مثالیں نظریہ حیات کو درست کر لینے کے لیے موجود پڑی ہیں۔ شداد نے دعویٰ خدائی کے بعد ایک جنت بنائی تھی جس میں سونے چاندی کو پگھلا کر سڑکیں بنائی گئیں درختوں پر ہیرے موتیوں کو پھل کی طرح ٹانکا گیا دودھ اور شہد کی نہریں رواں دواں کی گئیں مگر اُسے دیکھنے گیا تو اسی جنت کی دہلیز پر عزرائیل نے اس کی روح کو ایک پھونک سے اُڑا دیا۔ کہتے ہیں اس جنت کا نام اس نے اپنے بیٹے کے نام پر اِرم رکھا شاید وہ پہلا سیاستدان تھا جو موجودہ سیاستدانوں کی طرح موروثی وراثت کو رواج دینا چاہتا تھا اللہ اللہ خیر سلا۔