’دریائے‘ والٹن
والٹن روڈ لاہور کینٹ میں واقع ہے کینٹ کے علاقوں کو عمومی طور پر بہتر سمجھا جاتا ہے اور پھر والٹن روڈ ڈیفنس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ہاوسنگ سوسائٹی کی واحد مین اپروچ روڈ ہے جو ڈی ایچ اے کو دوسرے علاقوں سے ملاتی ہے اب تو خیر ڈی ایچ اے لاہور جتنا ایک بڑا شہر بن چکا ہے جسے فیروز پور روڈ بیدیاں روڈ برکی روڈ اور رنگ روڈ سے بھی اپروچ ہے لیکن ڈی ایچ اے کو جانے والے آج بھی مین والٹن روڈ کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ہر وقت ٹریفک کا رش رہتا ہے نحیف سا والٹن روڈ پوری ڈیفنس کی ٹریفک کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے کئی لحاظ سے اہم ہونے کے باوجود اس روڈ کا کوئی والی وارث نہیں ۔کافی سال پہلے تک کینٹ میں کوئی باقاعدہ سیوریج سسٹم نہ تھا بڑے بڑے گھروں والے بھی غرقیاں نکال کر وہاں سیوریج کا پانی ڈالتے تھے پھر سول ایوی ایشن والوں نے لاہور ایئرپورٹ کے سیوریج کا پانی نکالنے کے لیے ایک نالہ تعمیر کیا جو لاہور ایئرپورٹ سے نکل کر نشاط کالونی نیو سپر ٹاون ،والٹن روڈ سے ہوتا ہوا ارفع کریم ٹاور کے قریب واقع گندے نالے میں گرتا ہے اس سیوریج کے نالے کو تعمیر کرنے والے انجنیئر اگر کسی مہذب ملک میں ہوتے تو یقینی طور پر سزائے موت کے حق دار ٹھہرتے۔ لاہور ائیر پورٹ کا علاقہ بھی اونچی جگہ پر ہے اور ارفع کریم ٹاور کے علاقہ جہاں یہ نالہ گرتا ہے وہ بھی اونچی جگہ ہے بیچ میں والٹن روڈ نشیبی علاقہ ہونے کی وجہ سے اکثر دریا کا منظر پیش کرتا ہے اوپر سے یہ نالہ صرف ایئرپورٹ کے سیوریج کے پانی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اب ارد گرد کی تمام آبادیوں کا سیوریج اس میں ڈال دیا گیا ہے ان آبادیوں کا سیوریج کا پانی ڈسپوزل پمپوں کے ذریعے دریائے والٹن میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن دریائے والٹن میں اتنی کیپسٹی نہیں کہ وہ اسے برداشت کر سکے اکثر یہ پانی والٹن روڈ پر کھڑا رہتا ہے اور اگر کبھی بارش ہو جائے تو پھر اس علاقے کا منظر دیکھنے والا ہوتا ہے پہلے کسی میڈیا کو کھڑے پانی اور اس میں ڈوبتی ٹریفک کے ویڈیو کلپ چاہئیں ہوتے تھے تو وہ لکشمی چوک کا رخ کرتا تھا وہاں کا معاملہ تو حل ہو گیا لیکن اب یہ منظر والٹن روڈ پر اکثر نظر آتا ہے اگر کسی کو کشتی رانی کا شوق ہو تو اسے کہیں دور کسی دریا پر جانے کی ضرورت نہیں وہ اپنا شوق والٹن روڈ پر پورا کر سکتا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کہتی ہے یہ وفاق کا علاقہ ہے وفاق کہتا ہے کنٹونمنٹ بورڈ اس کا والی وارث ہے کنٹونمنٹ بورڈ کہتا ہے کہ یہ نالہ سول ایوی ایشن کی ملکیت ہے اس علاقے سے ہمیشہ نامور شخصیات منتخب ہوتی رہی ہیں خواجہ سعد رفیق اسے اپنی راجدھانی سمجھتے ہیں ہمایوں اختر خان یہاں سے منتخب ہو کر وزیر تجارت بنے اعتزاز احسن وزیر داخلہ رہے میاں وحید اختر مرحوم بھی یہاں سے ایم این اے رہے چوہدری یاسین سوہل اور میاں نصیر یہاں کے سدا بہار ایم پی اے ہیں لیکن اس علاقے کا یہ عذاب برقرار ہے وہ تو اللہ بھلا کرے والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا جو بارش کے ساتھ ہی مشینری لگا کر پانی باب پاکستان کی سائیٹ پر پھینکنا شروع کر دیتے ہیں لیکن دریاوں کا پانی کبھی ٹربائینوں سے خشک ہوتا ہے؟ والٹن روڈ کے مکینوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے بیماریوں نے اس علاقے کا منہ دیکھ لیا ہے ریکارڈ گواہ ہے سب سے زیادہ ڈینگی اور کرونا کے مریض اس علاقہ میں پائے گئے بلکہ چند ایک کیس تو ایسے بھی سامنے آئے جو بیماریاں کہیں اور نہیں اس علاقے سے ان کے مریض سامنے آئے اس دریائے والٹن میں ہر وقت طغیانی کی وجہ سے علاقے میں جائیدادوں کی قیمتیں گر چکی ہیں کوئی کاروبار نہیں بارشوں کے دنوں میں لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں قارئین آپ کی دلچسپی کے لیے اس علاقے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ دریائے والٹن کے کنارے پر ایک جنگل بھی پایا جاتا ہے جو ویسے تو ایک تاریخی مقام ہے جہاں قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کے کیمپ لگے تھے یہ اجڑے قافلوں کا پہلا پڑاو تھا حضرت قائد اعظم بھی ان کیمپوں میں تشریف لائے تھے۔ اس تاریخی جگہ کو باب پاکستان کا نام دیا گیا چالیس سال قبل مرحوم غلام حیدر وائیں جو کہ خود بھی ہجرت کے وقت یہاں ٹھہرے تھے جب وہ وزیر اعلی بنے تو انھوں نے اس تاریخی جگہ پر یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا چاروں صوبوں نے اس میں حصہ بھی ڈالا بڑے زور وشور کے ساتھ اس کی تعمیر شروع ہوئی لیکن افسوس ہم پاکستان کے دروازے کو نہ بنا سکے یہ منصوبہ آج تک التوا کا شکار چلا آرہا ہے اور تحریک پاکستان کے شہداء کی روحیں بے چین ہیں کہ ان کی یادگار تو آپ تعمیر نہ کر سکے اور اپنے اللے تللوں پر پاکستان کے سارے وسائل خرچ کر چھوڑے یادگاری عمارت کا ڈھانچہ تو بننے سے پہلے ہی بوسیدہ ہو چکا کم از کم حکومتیں اور کچھ نہیں کر سکتیں تو اس جگہ کی صفائی کروا کر وہاں گراونڈ ہی بنا دیں وہاں جاگنگ ٹریک بنا دیں اس پر زیادہ خرچ نہیں آئے گا لیکن اب یہ جنگل نشہ کرنے والوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اس جنگل کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تو پولیس نے بھی یہاں پولیس مقابلے شروع کر دیے ہیں خدارا لوگوں کے صبر کا امتحان نہ لیںیہ نہ ہو تنگ آکر والٹن روڈ کے مکین ڈی ایچ اے کی گزر گاہیں بند کر دیں خدارا یہاں کے باسیوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور ان کے دیرینہ مسائل حل کیے جائیں۔