سود کے خلاف شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
پاکستان کے مرکزی بینک اور چار دیگر نجی بینکوں نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ اپیل میں خزانہ اور قانون کی وفاقی وزارتوں اور چیئرمین بینکنگ کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے فیصلے کے خلاف اپیل سلمان اکرم راجہ نے دائر کی۔ پانچوں بینکوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے میں سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا لہٰذا فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔ شرعی عدالت کی طرف سے 28 اپریل 2022ء کو جاری کردہ فیصلے میں ربا ( سود ) کی ہر قسم کو حرام اور اس کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی تھی اور 31 دسمبر 2027ء تک تمام قوانین کو سود سے پاک اسلامی اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مذکورہ فیصلے کے آنے کے بعد فوری ردعمل میں تو اسے خوش آئند قرار دیا تھا لیکن اب اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کا ادارہ ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کے مرکزی بینک کا کردار ادا کرتا ہے اور اندرون ملک تمام بینکاری نظام کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ بینکاری نظام سے متعلق تمام ضوابط پر عمل درآمد کی نگرانی وزارتِ خزانہ کے ذمے ہے۔موجودہ حکومت خود بھی آئین کی پاسداری کرنے کی دعویدار ہے اور آئین میں واضح طور پر تحریر ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس طرح یہ تضادات خود حکومت کی حیثیت کو متنازعہ بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت خود واضح کرے کہ وہ اس ملک میں کون سا نظام معیشت رائج کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایک طرف آئین میں درج قرآن و سنت کے احکامات کو فوقیت دینے والے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرعی عدالت فیصلہ دے رہی ہے اور دوسری جانب ریاست کا مرکزی بینک اس فیصلے کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنے شہریوں پر یہ واضح کرے کہ معیشت کو کس ڈھب پر چلانا ہے تاکہ لوگوں کو کسی اگر مگر کے بغیر پتا ہو کہ ملک کو کس طرف لے جایا رہا ہے۔