پاکستانی خواتین اپنے خوابوں کو نہ چھوڑیں

Jun 27, 2022

عنبرین فاطمہ

عنبرین فاطمہ 
آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے ایسی خواتین کیلئے انسرپریشن ہیں جو زندگی میںکچھ کرنا چاہتی ہیں۔شرمین نے حال ہی میں پورے پاکستان سے پٹاخہ پکچرز کے زیر اہتمام دس لڑکیوں کو ان کے خواب پورے کرنے کا موقع فراہم کیا۔برٹش کونسل اور سکاٹش ڈاکومنٹری انسٹی ٹیوٹ یوکے کے تعاون سے اس پلیٹ فارم سے جن لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا ہے انہوں نے مختلف آئیڈیاز پر شارٹ فلمیں بنائی ہیں۔پانچوں گروپوں میں منقسم ان لڑکیوں نے کم سے کم دس اور زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کی سبق آموز فلمیںتیار کی ہیں جنہیں دنیا بھر کے مختلف میلوں میں دکھایا جائیگا۔شرمین عبید چنائے سے ہم نے خصوصی بات چیت کی انہوں نے کہا کہ میری ہمیشہ سے ہی خواہش رہی ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جو خواتین کو فنڈنگ دے اور وہ لڑکیاں اپنے خوابوں کو حقیقت کر سکیں وہ جو محسوس کرتی ہیں اسکو فلمائیں سوال اٹھائیں کہ کیوں ایسا ہوتا ہے یا کیوں ویسا ہوتا ہے۔پاکستان میں جو فلم انڈسٹری ہے وہ بہت چھوٹی ہے ٹینیکل سپورٹ اور فنڈنگ کا بہت ایشو ہے لہذا ایسا پلیٹ ہونابہت ضروری ہے کہ جو لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ شارٹ فلمیں بنا کر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کریں ۔ہم نے فنڈنگ کے پہلے مرحلے میں دس لڑکیوں کی پانچ فلموں کو سپورٹ کیا ہے ۔ہمارے ساتھ سکاٹ لینڈ سے آئی ایک مینٹور بھی ہیں جنہوں نے پہلے ان لڑکیو ں کی آن لائن ٹریننگ کی پھر پاکستان آئیں اور ان سے ملیں ان کے ساتھ مل کر کام کیا ۔سکاٹ لینڈ سے آئی مینٹور’’ انائے ‘‘  ان لڑکیوں کے ساتھ کام کرکے بہت متاثر ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں شرمین نے کہا کہ پاکستان کی عورتیں پاکستان کا فخر ہیں کیونکہ یہ سب سے زیادہ ایوارڈز لیتی ہیں سب سے زیادہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جب ہم نے اس فنڈنگ کیلئے ایپلیکشن لینا شروع کیں تو ہمیں پورے پاکستان سے کوئی سو کے قریب لڑکیوں کی درخواستیں موصول ہوئیں اور سب کا کام اور آئیڈیاز اچھے تھے لیکن ہمیں دس لڑکیوں کا انتخاب کرنا تھا ۔جن دس لڑکیوں کا انتخاب کیا ہے ان کے موضوعات اور اور کام کافی دلچپسپ تھا جو انہوں نے پہلے کر رکھا تھا ۔یہ ساری کی ساری لڑکیاں بہت زیادہ باصلاحیت ہیں ان کو بس ایک پلیٹ فارم چاہیے جس کے زریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں ۔یہ ساری کی ساری لڑکیاںاپنے کام کو لیکر کافی جنونی ہیں میری خواہش ہے کہ اب انہوں نے جو دس پندرہ منٹ کی فلمیںبنائیں ایک وقت ایسا بھی آئے کہ یہ ایک گھنٹے کی فلمیں بنائیں اور پاکستان کا نام روشن کریں دنیا کو بتا سکیں کہ یہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ہم نے ان دس لڑکیوں کو شارٹ فلموں کے لئے جو گرانٹ دی ہے یہ تو صرف شروعات ہے انہوں نے تو ابھی بہت آگے جانا ہے ۔میں نے ان سب کا تیار کام دیکھا ہے بہت زبردست ہے یقینا دیکھنے والے ان کے کام کو سراہیں گے ۔شرمین عبید چنائے نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں لڑکی پیدا ہو تو پہلے دن سے ہی اس کو طعنے ملنا شروع ہوجاتے ہیں ہم سب اس سوسائٹی کے رویوں کو سمجھ چکے ہیں لہذا اب تو ہر دوسری عورت جانتی ہے کہ اس نے سوسائٹی کے ساتھ کس طرح سے ڈیل کرنا ہے۔شرمین نے کہا کہ میں پاکستانی خواتین سے کہنا چاہتی ہوں کہ خواتین اپنے خواب کبھی نہ چھوڑیں اپنی زندگی اور خوابوں کو جئیں ۔شرمین کے ساتھ وہ دس لڑکیاں بھی موجود تھیںجنہوں نے مختلف موضوعات پر مبنی شارٹ فلمیں بنائیںہم نے اس سب سے بات کی ۔اہمن خواجہ اور مریم خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں چھوٹی عمر میں شادی کر دینے کا ایشو بہت بڑا ہے زبردستی کم عمر لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے ہماری فلم میں اس موضوع کو چھیڑا گیا ہے اس فلم میں صرف وہ بچی نہیں جس کی زبردستی شادی کروائی گئی ہے بلکہ اس میں بہت سارے ایسے پہلو ہیں جو قابل غور ہیں اور یہ بتایا گیا کہ کس طرح سے ایک لڑکی وکٹم سے سروائیور بنتی ہے۔یہ فلم یہ پیغام دے گی کہ لڑکی اگر بے آسرا ہو اور اس پہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہو تو وہ کس طر ح سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر ثابت کرتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ہم نے یہ فلم فیصل آباد میں شوٹ کی تھی وہاں پر ہمیں اس طر ح کے زیادہ کیسز ملے تھے ۔آمنہ مقبول اور بینش سرفراز نے کہا کہ ہم نے جو شارٹ فلم بنائی ہے وہ کہانی ہے ہنزہ کی ایک لڑکی کی جو یہاں بجنے والے میوزک کے مدھم ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس ختم ہوتے میوزک کو انٹر نیشنل لیول پر لیکر جاتی ہے ۔ان لڑکیوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم جب ہنزہ گئے تو وہاں دیکھا کہ دو عورتیں ایک ریسٹورانٹ چلا رہی تھیں ،وہاں ہر لڑکی اور عورت کو کام کرتے دیکھا ،خواتین صرف کھیتوں کا کام نہیں کرتیں بلکہ وہ ہر طر ح کا کام کرتی دکھائی دیں ۔گلگت بلتستان والے اپنی عورتوں کو امپاور کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں وہاں کیا کپڑے پہنے جاتے ہیں اس پر نہ جائیں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان کی سوچ کتنی پروگریسیو ہے ۔ہماری فلم کا دورانیہ دس منٹ کا ہے ۔سیمہ اقبال اور سحرش کنول نے کہا کہ ہماری فلم یہ بتاتی ہے کہ اگر لگن کے ساتھ کچھ بھی کیا جا ئے تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے ہماری کہانی میں دو بہن بھائی اندھے دکھائے گئے ہیں بہن سکول پڑھنے جاتی ہے تو اس کو اسکی نماز پڑھنے اٹھنے بیٹھے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ ہمت ہار کر گھر بیٹھ جاتی ہے بھائی جو اندھا ہونے کے ساتھ معذور بھی ہوتا ہے وہ ہمت نہیں ہارتا بس اس قسم کی چیزیں دکھائی گئی ہیں ، ہم سب نے اپنی شارٹ فلموں کے سکرپٹ بھی خود لکھے ہیں۔اریبہ نوید اور فاطمہ سید نے کہا کہ ہماری فلم کا موضوع ہے میرا جسم میری مرضی، یہ نعرہ عورت مارچ کی نمائندگی نہیں کرتا ہماری فلم میںبلکہ ہم نے اس فلم میں دکھایا ہے کہ عورتیں تو پاکستان کی تقسیم سے پہلے سے جدوجہد کررہی ہیںاپنے حقوق کیلئے۔یہ شارٹ فلم بتائے گی کہ سوسائٹی عورتوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور وہ عورتوں سے نفرت کیوں کرتی ہے ۔فرزین عزیز اور بشری پرویز نے کہا کہ میں نے اپنی فلم میں خواجہ سر ا کے موضوع کو چنا ہے سوسائٹی ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے یا رکھنا چاہیے اس شاٹ فلم میںاس پہ بات کی گئی ہے۔ان لڑکیوں کی مینٹو ر جو کہ سکاٹ لینڈ سے آئی ہیں انہوں نے کہا کہ میں ان لڑکیوں کے ساتھ کام کرکے بہت متاثر ہوں پاکستانی خواتین میں بہت صلاحیتیں ہیں اور میں حیران ہوئی ہوں ان کے اندر موجود کام کا جذبہ دیکھ کر۔

مزیدخبریں