ہفتہ ‘ 5؍ذیقعد 1441 ھ‘ 27؍ جون 2020ء
رزق حلال نجات کا ذریعہ ہے‘ ڈبل شاہ کو سنگل شاہ بنا دیا: چیئرمین نیب
چلیں مان لیتے ہیں چیئرمین نیب کی بات کہ انہوں نے ڈبل شاہ کو یا یوں سمجھ لیں کہ کئی ڈبل شاہوں کو سنگل بنا دیا مگر سوال یہ ہے کہ ان نوٹوں بھری تجوریوں سے نکلنے والی رقم سے ملک و قوم کی حالت بدلتی نظر کیوں نہیں آرہی۔ یہ رقم کہاں جارہی ہے‘ کہیں ایک تجوری سے نکل کر کسی دوسری تجوری میں تو نہیں جارہی؟ کہیں پس پردہ کوئی نئے ڈبل شاہ تو جنم نہیں لے رہے؟ اس ملک کو بے شمار ڈبل شاہ جونک بن کر چمٹے ہوئے ہیں۔ ان سب سے آدھی رقم چھین کر انہیں سنگل شاہ بنایا جائے تو بھی ملک کی حالت بدل سکتی ہے۔ سچ کہیں تو ان ظالموں کو سنگل شاہ بھی کیوں رہنے دیا جائے۔ یہ مال انہوں نے کونسا رزق حلال سے کمایا ہے۔ دو نمبری اور بے ایمانی سے عوام کو لوٹ کر کمایا جانے والا سارا مال بمع منافع ضبط کرکے ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ والے مقولے پر عمل کیا جائے۔ عوام بھی حضرت اقبال کے ساتھ مل کر…
ڈوبے گا کب سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر اے روز مکافات
کے انتظار میں ہیں۔ رہی بات نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی لوٹ مار کی تو ظالموں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ انہوں نے شہروں کے اردگرد کی سرسبز و شاداب زرعی اراضی کو تباہ و برباد کرکے وہاں ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا کر زرعی اراضی ختم کر دی ہے۔ اب نہ وہ پھلوں کے باغات رہے نہ وہ تازہ سبزیاں‘ نہ فصلوں سے لہلہاتے کھیت۔ ہر طرف بے ڈھنگی بے ہنگم ہائوسنگ سکیمیں کینسر کی طرح پھیل رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دنیا بھر میں زرعی اراضی تباہ کرنے کی اجازت نہیں بھی نہیں۔ کوئی بھی ملک زراعت کو تباہ کرکے خوشحال نہیں رہ سکتا۔ وہاں بنجر اراضی تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ خدا جانے ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کب سمجھ میں آئیگی۔ نئی آبادیاں ضرور بنائیں مگر سرسبز قابل کاشت زمین کی قیمت پر نہیں۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان گارنٹی دے دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوگا‘ بھارتی کرکٹ بورڈ کی ہرزہ سرائی
یہ تو صاف بات ہے کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان کا کوئی ارادہ نہیں۔ اب وہ ٹال مٹول کررہی ہے۔ گمراہ کن بیانات دیکر عالمی برادری کو گمراہ کررہی ہے۔ دراصل یہ سب پاکستان دشمن بھارتی حکومت کی چالیں ہیں۔ ایک طرف بھارتی حکومت کھیل اور میوزک کے سرحدوں سے ماورا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے‘ دوسری طرف بھارتی کرکٹ بورڈ نہ سرحد پر حملہ ہوگا‘ نہ سیز فائر کی خلاف ورزی ہوگی‘ نہ پلوامہ جیسے واقعات ہونگے کا راگ الاپ کر اپنے بے سروپا الزامات اور شرائط سنا رہی ہے۔ کرکٹ ٹیم کے دورے کا سیاست سے کیا تعلق‘ یہ تو سراسر ’’نہ نومن تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی‘‘ والی بات ہے۔ کیا بھارتی کرکٹ بورڈ نہیں جانتا کہ پلوامہ ڈرامہ کس نے رچایا‘ سیزفائر کی خلاف ورزیاں کون کررہا ہے‘ سرحدوں پر پرامن شہری آبادیوں پر گولہ باری کون کررہا ہے‘ اپنے گناہ دوسروں کے سر تھوپنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کو ان تمام باتوں سے اپنی حکومت کو روکنا چاہیے۔ پاکستان پر الزام تراشی سے کچھ نہیں ہوگا۔ دورہ نہ کرنے کے ہزاروں بہانے ہیں۔ الزام تراشی کا مطلب بھی یہی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم بھی کوئی مری نہیں جارہی بھارت کے ساتھ کھیلنے کیلئے۔ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے وہاں جا کر ہماری ٹیم اپنا شوق پورا کرلے گی۔ اب پاکستان کرکٹ بورڈ والے منہ میں گھنگنیاں ڈال کر نہ بیٹھیں۔ انڈین کرکٹ بورڈ والوں کی اس ہرزہ سرائی کا منہ توڑ بلکہ دندان شکن قسم کا جواب دیں۔ اپنا رزق حلال کریں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہم زندہ قوم ہیں‘ پائندہ قوم ہیں۔
٭…٭…٭…٭
ارطغرل چوک اور مجسمے کے بعد اب ارطغرل پاپڑ بھی مارکیٹ میں آنے کو تیار
’’آسمان میں تھگلی لگانے‘‘ سے لے کر ’’پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی‘‘ والا کون سا کام ہے جو ہم انجام دے نہیں سکتے۔ دوسروں کی شادی میں دیوانہ بننا کوئی ہم سے سیکھے۔ نقالی کے ہم ماہر ہیں۔ خود تو کچھ کر نہیں سکتے‘ دوسروں کے ہیروز کو سر چڑھاتے پھرتے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ ارطغرل ایک مسلمان ملک کا ہیرو ہے۔ وہ بھی ہمارے دوست ملک ترکی کا۔ اس کے نام پر اگر کسی نے اپنے گلی محلے کی سڑک یا چوک کا نام ازخود ارطغرل رکھ لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس طرح ہم لوگ خوش ہوتے ہیں تو ہونے دیں۔ ویسے بھی کرونا لاک ڈائون میں ایسی خبریں دل کو خوش رکھنے کیلئے معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں وہاں ارطغرل کا مجسمہ کب نصب ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں مجسمہ نصب کرنے پر ایک طبقہ برہم ہوتا ہے۔ انہوں نے تو محسن لاہور سرگنگارام کا مجسمہ تک توڑ ڈالا جس کے نام پر قائم ہسپتال میں لاکھوں لوگ سالانہ مفت علاج کراکے صحت یاب ہوتے ہیں۔ رہی بات حلیمہ خاتون کے نام پر بننے والے پاپڑوں کی تو یہ بھی دعا کریں کہ یہ کسی اچھی کمپنی کی اختراع ہو‘ تاکہ اعلیٰ کوالٹی کے پاپڑ کھانے کو ملیں اور واقعی ہماری اشتہارات کی ماری قوم کو توانائی اور طاقت حاصل جس اسے بہت ضرورت ہے۔ اب یہ اس کمپنی سے پوچھنا ضروری ہے کہ ترکی میں اس وقت پاپڑ کون کھاتا تھا اور اس طاقتور پاپڑ کا فارمولا انہوں نے کہاں سے حاصل کیا۔ ایک خانہ بدوش قبیلہ اپنے روایتی کھانوں کی ترکیب لکھنے سے تو رہا۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس پاپڑ بنانے والی کمپنی کے مالکان کا شجرہ نسب حلیمہ خاتون کے قبیلے سے کہیں جا کر ملتا ہو۔ اسی لئے انکے ہاتھوں سے بنے ذائقہ دار یہ پاپڑ اب لوگ پاکستانیوں کو کھلا کر اپنی تجوریاں بھریں گے اور بے چارے پاکستانی ناقص پاپڑ کھا کھا کر رہی سہی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
٭…٭…٭