عمران خان کی اس جملے کی تکرار اب اپنی تاثیر کھو بیٹھی ہے مگر اس کی ہر بات پر یقین کر لینے کو جی چاہتاہے بلکہ یقین ہو جاتا ہے۔ ’’میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔،، ڈاکٹر بابر اعوان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے مبارکباد۔
عمران خان! ہم تمہارے ساتھ ہیںمگر قدم بڑھانے کا معاملہ ابھی کھٹائی میں ہے۔ ہر حکمران نے اپنے سے پہلے حکمران پر تنقید کی مگر اس کے خلاف کچھ کہا نہیں۔ ہمیں کچھ تو معلوم ہو کہ کس حکمران نے عوام کے ساتھ کیا زیادتی کی ہے۔ حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں۔
ایک لیجنڈ کرکٹ کپتان مصباح الحق نے کہا ہے کہ کرکٹ کی قومی ٹیم ذہنی طور پر کمزور ہے۔ اچھے دل والے مصباح الحق کا تعلق میانوالی سے ہے۔ عمران نے کہا تھا کہ ٹاس جیتو تو پہلے بیٹنگ کرو ۔ مگر سرفراز نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کے لیے بھارت کو دعوت دے دی اور ہار گیا۔ عمران نے قوم کی کپتانی کے دوران ابھی تک کچھ نہیں کہا۔ اب ڈاکٹر بابر اعوان نے باقاعدہ تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اب کچھ امید سی ہے۔
معروف دانشور اور شاعرہ سماجی شخصیت عمرانہ مشتاق نے ا یک تنظیم بنائی ہے۔ اس کا نام لائف رکھا ہے۔ لائف کا ایک ہی قافیہ ہے۔ وائف۔ وائف جو سلوک اپنے شوہر کے ساتھ کرتی ہے وہی سلوک آدمی کے ساتھ لائف کرتی ہے۔ نوجوان دانشور خاتون نازش یعقوب لائف اور وائف کے کردار کو زندگی میں بہت اہم سمجھتی ہے جبکہ وہ ابھی تک وائف نہیں بنی مگر چاہتی ہے کہ وائف انسان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرے۔
ایک خبر آئی ہے کہ بھارت میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان بہت مقبول ہے۔ پاکستان کے عوام کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ عمران خان کو پاکستان میں عوام کے لیے پسندیدہ ہونا چاہئے۔ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تھے۔ ان کی پسندیدگی میں اضافہ ہوا تھا وہ ورلڈ کپ جیت کر لے آئے ۔ لوگ اس کامیابی کو کبھی نہیں بھولیں گے مگر؟
انہوں نے شوکت خانم ہسپتال بنوایا۔ ایسا ہسپتال تو کوئی حکمران بھی نہیں بنوا سکا۔ پہلے سے موجود گورنمنٹ ہسپتال بھی بے کار ہوتے چلے گئے ہیں۔ حکمران بن کے ایک آدھ ہسپتال کا معائنہ انہوں نے کیا ہو گا۔ انہوں نے نمل یونیورسٹی بھی بنوائی جو میرے گائوں سے تین چار کلو میٹر دور ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ شاید بستی موسیٰ خیل اور موسیٰ خیل والوں کا بھلا ہو جائے گا۔ عمران خان کی دو فرسٹ کزنز موسیٰ خیل میرے رشتہ داروں میں بیاہی ہوئی ہیں۔ مگر نمل یونیورسٹی آتے جاتے ایک بار بھی عمران خان نے موسیٰ خیل کا چکر نہ لگایا۔ میں نے اب عمران خان کا نام حکمران خان رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران کو کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا۔ پاکستان کے ہر حکمران کا یہی نصیب ہوتا ہے۔
حکمران بننے کے بعد بھی یہی تاثر سیاستدانوں اور لوگوں کا ہے کہ عمران کرپٹ نہیں ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ اک یہی بات سب باتوں پر بھاری ہے لوگوں نے جو توقعات رکھی ہیں عمران خان کے ساتھ وہ لازوال ہیں۔ پاکستان کے سارے حکمرانوں کے ساتھ اتنی توقعات نہ تھیں جو اکیلے عمران خان کیساتھ ہیں۔ مگر ابھی تک کوئی ایک بھی توقع پوری نہیں ہوئی۔ یہ تاثر 22 کروڑ عوام کا ہے۔ وہ جو بے شمار اُمیدیں عمران خان کے ساتھ عوام رکھتے تھے ۔ غریب رکھتے تھے انہیں ہر حکمران نے مایوس کیا۔ وہ عمران خان کے آنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ مگر وہ 9 مہینوں میں ہی مر گئے ہیں۔ عوام کی یہ مایوسی تباہ کن ہو گی ۔ جمہوریت پر پہلے ہی ایمان اُٹھ گیا تھا۔ اب تو لوگ مایوسی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ اتنے مایوس پہلے نہیں ہوتے تھے اور آئندہ بھی نہیں ہونگے۔ اب مایوسی اور زندگی لوگوں کے لیے ایک ہو گئی ہیں۔ اب وہ کسی کے ساتھ امید نہیں لگائیں گے۔ عمران خان امید کا بڑا ٹھکانہ ہیں۔
البتہ ڈاکٹر بابر اعوان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے پھر ایک بار امید بندھ گئی ہے۔ دونوں مل کر ضرور کامیاب ہونگے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نندی پور کے معاملے میں برَی ہو گئے ہیں۔ اب طرح طرح کے عذابوں سے لوگ بھی بری ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور لوگوں کو مبارکباد عرض ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار نے بہاولپور کے ہرایم پی اے سے ہاتھ ملایا۔ حکمران ہمیشہ معروف نمایاں اور بظاہر طاقتور آدمی کو وزیراعلیٰ لگاتے ہیں۔ مگر عمران خان نے ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جسے لوگ جانتے ہی نہ تھے۔ عثمان بزدار سرائیکی علاقے کے سردار ہیں۔ اب سب پنجابیوں کے سردار ہیں۔ بہت عزت کرنے والے محبت کرنیوالے ہیں اب خدمت کرنے والے بھی ہیں۔
ان کی بیگم ایک مقامی کالج میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ پروفیسر ہونے کی حیثیت کو اپنے تعاون کے لیے مناسب سمجھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ بزدار صاحب کے حوالے سے نمایاں ہوا ہے کہ ان کی بیگم پروفیسرہیں۔ ورنہ وزیر اعلیٰ کی اہلیہ اس کے علاوہ تعارف مناسب نہیں سمجھتی مگر پروفیسر صوفیہ بزدار کے لیے یہ تعارف کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ میرے ہمسائے میں میرے دوست مرحوم شکور صاحب کی صاحبزادی ساجدہ بیٹی پروفیسر صوفیہ صاحبہ کے ساتھ وزیراعلیٰ ہاؤس میں باقاعدہ تعینات ہیں۔ وہ ان سے محبت کرتی ہیں اور خدمت کرتی ہیں۔ محبت سے بڑی خدمت کوئی نہیں۔
میری اہلیہ رفعت بیگم صوفیہ سے ملی ہیں۔ وہ ایک بہت شائستہ مزاج کی خاتون ہیں۔ اُن سے ملنے والی ہر خاتون اُن کی معترف نظر آتی ہے کہ وہ ایک اہل خاتون ہیں۔ لگتا ہے کہ اہلیہ اہل سے ہے۔ ہر اہلیہ کو اس حقیقت کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ ایک قابل فخر مناسبت ہے کہ میری اہلیہ نے بتایا کہ اُن کی ایک بہت پیاری بیٹی کا نام تقدیس ہے۔ میری ایک بیٹی کا نام بھی تقدیس نیازی ہے۔ میر ی اہلیہ نے تقدیس بزدار کو بتایا کہ مجھے معلوم ہوتا تو میں ا سے ساتھ لاتی اور آپ کے ساتھ ملاقات کرواتی۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں گرمیوں کی چھٹیوں کے ہونے سے سمر سکول کا انعقاد ہوتا ہے جسے مرشد و محبوب مجید نظامی نے نظریاتی سمرسکول کا نام دیا تھا۔ آج 26 جون کو وہاں موجود بچوں اور بچیوں سے معروف دانشور کئی کتابوں کی مصنف پاکستان کی سب سے بڑی خطیبہ بُشریٰ رحمان خطاب کر رہی ہیں یہاں ملک کی بہترین علمی و ادبی شخصیات خطاب کرتی ہیں۔ اس کے لیے سیکرٹری جنرل نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید بہت محنت کر رہے ہیں۔ میں نے بھی طلبہ و طالبات سے گفتگو کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچے جنت کے باشندے ہوتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024