قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دھواں دھار تقریر‘ حکومت اپنے تمام ارکان کی حاضری یقینی نہ بنا سکی
بدھ کو قومی اسمبلی میں مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک پر بحث جاری ہے جبکہ پارلیمنٹ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا ’’اکٹھ ‘‘ تھا جس میں حکومت کو گرانے کے لئے تحریک سمیت اہم امور زیر بحث آئے، پارلیمنٹ کے اندراپوزیشن ارکان حکومت کوآ ٓڑے ہاتھوں لے رہے تھے جب کہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتیں ’’صف آراء ‘‘ ہو رہی تھیں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ساڑھے آٹھ گھنٹے شام تک جاری رہا اسی طرح آل پارٹیز کانفرنس بھی کم و بیش 9گھنٹے جاری رہی آل پرٹیز کانفرنس حکومت کے اعصاب پر سوار رہی حکومت اے پی سی کے فیصلوں کا انتظار کرتی رہی ،اسی طرح اپوزیشن ارکان کی بھی دوڑیں لگی رہیں کبھی وہ اے پی سی میں شرکت کرتے کبھی انہیں پارلیمنٹ میں بلوا لیا جاتا رہا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال اے پی سی چھوڑ کر پارلیمنٹ میں آگئے جب کہ بلاول بھٹو ، شہبازشریف ،شاہد خاقان ، رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب سمیت اپوزیشن کے کئی ارکان مطالبات زر کی منظوری کے وقت اے پی سی میں موجود رہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے حکومت نے بھی مطالبات زر کی منظور ی کے ایوان میں حاضری کو یقینی بنا یا حکومت کو خدشہ تھا کہ مطالبات زر کی منظوری کے دوران اپوزیشن حکومت کو سرپرائز دے سکتی لیکن پھر بھی تمام حکومتی ارکان کی حاضری یقینی نہیں بنا سکی، اپویشن ارکان برجیس طاہر ، پرویز اشرف ، رانا تنویر حسین ، نفسیہ شاہ ،حنا ربانی ، خرم دستگیر ، عائشہ پاشا ، شازیہ مری نے کابینہ ڈویژن اور وزارت مواصلات کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک دھواں دھار تقاریر کیں، قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔جس میں کابینہ ڈویژن کے24مطالبات زر پر اپوزیشن کی جماعتوں نے مجموعی طور پر315اور وزارت مواصلات کے3مطالبات زر پر 29کٹوتی کی تحاریک پیش کیں۔کابینہ ڈویژن کی کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں برجیس طاہر ، خرم دستگیر خان ، چوہدری فقیر محمد ، مہرین رزاق بھٹو ، شازیہ مری ، شزافاطمہ خواجہ ، وزیر مملکت پارلیمانی امورعلی محمد خان ، رانا تنویر حسین نے حصہ لیا ۔قومی اسمبلی میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں ے669ارب سے زائد مالیت کے 93مطالبات زر کثرت رائے سے منظور ہو گئے اپوزیشن کی کابینہ ڈویژن اور وزارت مواصلات کے 27مطالبات زر پر تمام 344کٹوتی کی تحاریک مسترد ہو گئیں ،تحاریک کے خلاف160حکومتی واتحادی ، حمایت میں اپوزیشن کے 126 ارکان نے ووٹ دیا اتحادی بی این پی مینگل کا مطالبات زر کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دیا ، حکومتی ارکان نے سردار اختر مینگل کے حق میں نعرے لگائے ۔پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ نے رائے شماری کو چیلنج کیا جس پر سپیکر اسد قیصر نے کٹوتی کی تحاریک پر ایوان میں ووٹنگ کروائی ۔ آصف علی زرداری بھی ایوان میں تاخیر سے پہنچے اور کٹوتی کی تحاریک کی رائے شماری میں حصہ نہ لے سکے قو می اسمبلی نے بلو چستان کے مسائل کے حل کے لئے سپیکر قو می اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لئے تحریک متفقہ طور پر منظور کر لی،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا ایک اور وعدہ پورا کر دیا ہے ،سپیشل کمیٹی بلوچستان کے تمام مسائل دیکھے گی جبکہ سردار اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے کمیٹی کا قیام خوش آئند اقدام ہے،کمیٹی کو 2 مہینے کا مینڈیٹ دیا جائے،2 مہینے بعد کمیٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، ایسا نہ ہو کہ کمیٹی کی رپورٹ کا حال حمود الرحمن کمیشن والا نہ ہو وزیراعظم عمران خان ایوان میں مطالبات زر کی منظوری کے وقت آئے اور اس دوران حکومتی ارکان نے بھرپور انداز میں ان کا خیرمقدم کیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعرات کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کیلئے 434کھرب روپے سے زائد کے لازمی خراجات (غیر تصویبی اخراجات)کی تفصیلات پیش کر دی گئیں، لازمی اخراجات پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن نے شدیدتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لازمی اخراجات میںگزشتہ سال کی نسبت 83 فیصد اضافہ ہوا،غیر ملکی قرضوں اور سود کے اخراجات میں 87فیصد اضافہ ہوا ہے،روپے کی قدر میں کمی اور پالیسی ریٹ بڑھانے کی وجہ سے قرضوں کی لاگت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مطالبہ کیا ۔