شادی ایک معاشرتی بندھن ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں شادی اپنے معاشرتی آداب اور رسم و رواج کے مطابق انجام پاتی ہے۔ ہر معاشرے میں شادی کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی کا فریضہ شرعی طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام نے شادی کے کچھ ضابطے مقرر کر دئیے ہیں اور اسی روشنی میں مروجہ قوانین کے مطابق شادی کیلئے جو حدود اور رولز متعین ہیں اُن پر عمل کرنا ریاست اور افراد کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں فیملی کورٹس اس کا نوٹس لیتی ہیں اور کسی بھی شکایت پر ٹرائل عمل میں لاتی ہیں۔ کسی مسلم کیلئے نکاح کا ہونا اور آئین و قانون کے مطابق نکاح کی رجسٹریشن ضروری قرار دی گئی ہے۔ شادی کامیاب نہ ہو یعنی میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات میں کوئی رخنہ پیدا ہو جائے اور کسی صورت یہ تعلق نارمل حالات کی طرف نہ آئے تو شری اور قانونی اعتبار سے طلاق اور خلع کا اصول اپنایا جاتا ہے۔ کوئی بالغ مسلمان لڑکی یا خاتون کسی غیر مسلم سے شادی کرنا چاہے تو لازم ہے کہ مسلمان لڑکی یا خاتون سے شادی کا خواہش مند کوئی بھی غیر مسلم پہلے مسلمان ہو، یعنی صدقِ دل سے کلمہ پڑھے اور توحید پر ایمان لاتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ اسلام کے باقی ارکان پر عملدرآمد مسلما ن ہونے کے بعد کا معاملہ ہے۔اب ذکر کروں گا ایسی شادیوں کا جو نو مسلموں کے ساتھ ہوتی ہیں اور اکثر اوقات پریشانی اور انتہائی غیر معمولی حالات کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان دنوں چینی نوجوانوں کے ساتھ پاکستانی لڑکیوں کے شادی کے قصے زبانِ زدِ عام ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان شادیوں کیلئے چین اور پاکستان میں ایک بااثر گروہ یا مافیا سرگرم ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ اگرچہ راولپنڈی، لاہور اور فیصل آباد میں ان شادیوں کی آڑ میں دھوکہ دہی کرنے والے بہت سے چینی نوجوانوں کیخلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں اور کچھ کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ لڑکیاں بھی برآمد ہو چکی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ یہ ایک ایسی سازش ہے جس کا سراغ لگایا جانا اور اس کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہی نہیں، بہت ضروری ہے۔ اگرچہ حکومتِ چین نے ان شادیوں کے حوالے سے جنم لینے والی اطلاعات اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور سرکاری سطح پر بھی کارروائی کا آغاز کیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔اطلاعات کیمطابق جن پاکستانی لڑکیوں نے چینی نوجوانوں سے شادیاں کیں انہیں چین لے جا کر جنسی بے راہروی کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ بات نہ ماننے والی لڑکیوں پر انتہائی درجے کا تشدد ہوتا ہے۔ نہایت معمولی باتوں پر روز کی مارپیٹ معمول کا حصہ ہے، جو لڑکیاں پولیس کارروائی کے بعد برآمد ہو چکی ہیں ، اُنکے بیانات بہت ہی دل ہلا دینے والے ہیں۔ان شادیوں کیلئے جو مافیا، پاکستان اور چین میں سرگرم ہے وہ ایک خاص مقصد اور پروگرام کے تحت ان شادیوں کو کیسے آپریٹ کرتا ہے، یہ چونکا دینے والی بات ہے۔ شادی کے بعد لڑکیوں کو چین لے جایا جاتا ہے وہاں انکے ساتھ کیا گزرتی ہے؟ یہ احوال ہم آگے چل کر بتائینگے۔اب تک کی تفصیلات کے مطابق چائنہ مافیا، پاکستانی مافیا کے ساتھ مل کر یہ مکروہ دھندہ کر رہا ہے جو کئی برسوں سے جاری ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کے مختلف گائوں میں چینی لڑکوں کے ساتھ پاکستانی لڑکیوں کی شادیوں کے حوالے سے بینر لگائے جاتے ہیں ۔ اس مافیا کے ارکان مختلف غریب فیملیز کو ورغلاتے اور سبز باغ دکھاتے ہیں کہ چین میں چونکہ ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی عائد ہے اس لیے وہاں لڑکیوں کی بے حد کمی ہے اس لیے بے حد امیر چینی لڑکے، پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی کے خواہش مند ہیں۔ خواہش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ پاکستان میں چین کے اشتراک سے سی پیک منصوبہ تکمیل پا رہا ہے اس لیے چینی نوجوان پاکستان میں رہنا اور یہاں کاروبار کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وہ آرزو مند ہیں کہ تجارت کے ساتھ پاکستان میں مستقل سکونت بھی اختیار کریں۔ مافیا کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو لڑکے، پاکستانی لڑکیوں سے شادی کے خواہش مند ہیں اُن کا تعلق چین کے بڑے کاروباری طبقے سے ہے۔ وہ یہ ترغیب بھی دیتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستانی لڑکی کسی چینی لڑکے سے شادی کریگی تو اُسے ناصرف چالیس ہزار روپے مہینہ خرچ دیا جائیگا بلکہ اُسکے بھائیوںکو چین میں بڑی رقوم پر نوکری بھی فراہم کی جائیگی۔ پاکستانی دلہن کو چین میں چالیس ہزار روپے کی صورت میں ماہانہ جو جیب خرچ ملے گا، لڑکی چاہے تو یہ رقم پاکستان میں اپنے گھر والوں کو بھیج سکتی ہے۔ وہ چین میں نوکری کرنا چاہے تو اس پر چینی شوہر کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ وہ اس نوکری سے حاصل ہونے والی رقم بھی اپنے غریب والدین کو پاکستان بھجوا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ جو کچھ مافیا کی طرف سے ضرورت مند غریب فیملیز کو کہا جاتا ہے وہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔ غریب فیملیز پیسوں کے لالچ میں اس مافیا کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جب لڑکیاں شادی کے بعد چین پہنچتی ہیںتو انکے ساتھ ایسے حالات کا آغاز ہوتا ہے جو بھیانک ہی نہیں لرزا دینے والے بھی ہیں۔ چینی لڑکوں کے ساتھ شادی کر کے چین جانیوالی ان لڑکیوں کے ساتھ ہر طرح کا بُرا سلوک تو ہوتا ہی ہے ، اُن سے جسم فروشی بھی کرائی جاتی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان لڑکیوں کو دوسرے ہاتھوں میں بیچ دیا جاتا ہے جہاں انکے جسموں کے مختلف آرگن کو نکال کر ضرورت مندوں کو بیچ دیتا ہے اور پیسے کماتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر وہ فیملیز اس استحصال کی شکار ہوئی ہیں جو بہت ہی غریب ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024