سابقہ سے سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جتنی تعریف ان کی کم گو ہونے ، اپنے ہمراہ موبائل نہ رکھنے کی لوگوںسے بہت سُنیں، پھر میرے دوست نوائے وقت اسلام آباد کے چیف رپورٹر نواز رضا بھائی سے بے شمار تعریفیں سُنیں ، یہ بھی سُنا کہ ان کی وزارت واحد وزارت ہے جو کرپشن سے پاک ہے (جبکہ حقیقت میں خود وزیر ضرور کرپشن سے پاک تھا ، مگر ان کی وزارت سے منسلک ادارے الا مان ، جتنی اللہ سے توبہ کی جائے کم ہے، محکمہ داخلہ جہاں پولیس اور دیگر ادارے ہوں اور وہ کرپشن سے پاک ہوں ایک نہایت ہی عجیب ہی بات ہے) یہ ضرور حقیقت ہے کے چوہدری نثار کے متعلق تحریک الزام پارٹی بھی کرپشن کا کوئی الزام نہ ڈھونڈ سکی۔ چوہدری نثار کے متعلق ایک میں نے کالم لکھا جس میں بہ حیثیت وزیر ان کی تعریف تھی ، اس پر انہوں نے میرا رابطہ نمبر حاصل کر کے بہ حیثیت وزیر مجھے جدہ فون کر کے میرے کالم کی تعریف بھی کی جس پر مجھے خوشی ہوئی کہ واقعی وزیر قابل تعریف ہے چونکہ اخبار بھی پڑھتا ہے۔ میں بھی بھائی نواز رضا کی طرح ہر جگہ غائبانہ حمایتی ہوگیا ۔ جس طرح مخدوم امین فہیم خاندان پی پی پی سے اختلافات کے باوجود پی پی پی چھوڑنے کو معیوب سمجھتا رہا ہے اسی طرح مسلم لیگ سے وابستگی بھی شائد میاںنواز شریف سے اختلاف رکھنے کے باوجود گزشتہ ہفتے تک بھرم رہا گو کہ یہ لاوا آج کا نہیںشائد 1993 ءسے ہے ، یہ دلوںمیں معاملات اس وقت سے ہیں جب تمام تو کوششوں کے باوجود بھی چوہدری نثار اپنے بھائی کیلئے آرمی چیف کا عہدہ نہ پا سکے ۔میاں نواز شریف اور ان کے خاندان دلوں میں زخم لئے جب سے بیٹھا ہے جب پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو برطرف کیا، جیل گئے ، ان کی ملک بدری ہوئی نیز کئی دیگر رہنماﺅں کی جیل جانا پڑا ، مگر چوہدری نثار صرف گھر میں نظر بند کئے گئے ، جو لوگ جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں وہ تمام معاملات کو دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں۔ جماعتوں کے اندر رہ کر اختلافات کئے جاتے ہیں مگر چوہدری نثار نے لگتا ہے اندر بیٹھ کر اختلافات کئے ہی نہیں بلکہ روٹھے زیادہ رہے ، میاں شہباز شریف اپنے بھائی اور چوہدری نثار کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ میاں شہباز شریف ان کے مسلم لیگ کے کچھ رہنماﺅ ں اور میاں نواز شریف کے متعلق چوہدری نثار کے علیحدگی میں اختلافی خیالات سُنتے رہے اور یہ باتیںانہوں نے اچھا رہنما ہونے کی وجہ سے اپنے بھائی تک نہ پہنچائیںکہ سلسلہ ٹوٹے نہیںچونکہ انہیں بھی ” گھریلو حالات “ کا علم تھا ۔ میاں صاحب کے پانامہ معاملے پر چوہدری نثار چاہے سوچ صحیح ہو مگر وہ میاں نوازشریف کو راضی نہ کر سکے یہ جماعتوںمیں ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ روٹھ کر بیٹھ جایا جائے ، دوم میاں صاحب بھی چوہدری نثار کی وفا داری کو نظر انداز کر کے صرف چوہدری نثار کے سابقہ ”تعلقات“ سامنے رکھتے رہے جسے منفی انداز میں میاں نواز شریف کے چاروںطرف موجود خواجہ آصف اور پرویز رشید سوچ کے حامل پارٹی رہنماء ہوا دیتے رہے ۔ میاں صاحب اپنے خلاف نااہلی اور ان پر کئے جانے والے مسلسل حملوں کے بعد جس سیاست کی طرف چل نکلے ہیں اس میں چوہدری نثار کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ چوہدری نثار اس وقت بہت ناراض نظر آتے ہیں مگر پھر بھی قسطوں میں پریس کانفرنس کرتے ہیں جیسے صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ لگتا ہے کہ میاں نوازشریف ”تابعداری“ کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں اس لئے اب فیصلہ کر بیٹھے ہیں ان کی سوچ کے مطابق وہ آئندہ حکومت ، اور جمہوریت کے تابعداری سے پاک کر رہے ہیں جو کہ ایک مشکل کام ہے ، انتخابات تک جانے کیلئے وہ گزشتہ چند ماہ سے اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے بلکہ اپنے بیانیے پر بقول شخصے ’ ہولاہاتھ “ رکھا ہوا ہے ۔ سیاست میں جو میدان میں رہتا ہے وہی آگے ہوتا ہے یہ سوچ بھی چوہدری صاحب کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ میں نوازشریف کی بات سُننے کو تیار ہوں مگر مریم نواز کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے کو تیار نہیں ، بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ جو میاں نواز شریف کے ساتھ جدوجہد میں میاں نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا وہی تو آگے ہوگا چاہے ان کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ملک میں تو جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے وہ وہ آج بھٹو کے نواسے اور داماد کے آگے باندھے کھڑے ہیں ، جس نواسے کی جدوجہد کی کوئی تاریخ نہیں مریم نواز کی تو 2017 ءمیں تاریخ بھی ہے۔ 2018ءکے انتخابات پاکستان میں انتخابات کی تاریخ رقم کریں گے ۔ عوام کا شعور جاگ چکا ہے ، مگر سیاسی رہنماﺅں کا شعور نہیں جاگا ، عوام دعا کریں کہ انتخابات ہو جائیں اور جو بھی عوام کے ووٹوںسے حکومت کا حقدار بنے وہ ملک کے مستقبل کیلئے بہترین ہو ، ایماندار میں اس لئے نہیں کہوںگا کہ حالیہ حاضرسٹاک لیڈران میں ایمانداری والا عنصر نکال دینا ہی بہتر ہے ۔ ارب پتی ، کروڑ پتی لوگ میدان میں کود پڑے ہیں غریب ، بے روزگاروں ، مہنگائی کے ماروںکا ووٹ لیکر برسر اقتدار آنے کیلئے ، اربوں روپے کے اثاثے مجبوری میں ظاہر تو کئے گئے مگر وہ کہاں سے آئے یہ کون پوچھے گا ؟؟ یہ اربوںروپوں کے اثاثے رکھنے والے بے چارے چند لاکھ کے مکانوں میں رہ رہے ہیں ، نہ صرف بے شمار دولت کا ظہور ہوگیا بلکہ بیویاں بھی نکل آئیں ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار ، نگراں وزیر اعظم مل کر اس جمہوریت کو آگے چلانے کا سد باب کر جائیں اور انتخابات کرا دیں چونکہ ابھی بھی متوقع نتائج پر نظر رکھنے والوں کی یہ خواہش ہوگی کہ فی الحال انتخابات نہ ہوں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024