جناب مجید نظامی۔نوابزادہ نصر اللہ خاں…دو عہد ساز شخصیات
’’دنیائے صحافت‘‘ کے ’’بے داغ‘ لازوال کردار‘‘ جناب مجید نظامی کو ہم سے بچھڑے 7سات اور’’ دنیائے سیاست‘‘ کے ’’بے تاج بادشاہ‘‘نوابزادہ نصرا للہ کو 17سال ہو گئے ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ دونوں میں ہی’’سات‘‘ کا عدد مشترک تھا اور دونوں کی ہی ’’وفات ‘‘اور’’تدفین‘‘ چندگھنٹوں کے فرق کے ساتھ ایک ہی روز’’ہفتہ‘‘ کے دن ہوئی۔’’نظامی خاندان‘‘ اور’’ نوائے وقت‘‘ کے ساتھ نوابزادہ نصر اللہ خاںکا تعلق بہت پرانا تھا۔ اور وہ ’’آموں‘‘ کا تحفہ بھیجنے میں بھی کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔23 مارچ 1940ء کو ’’جناب حمید نظامی‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح کی رفاقت میں مینارِِ پاکستان والی جگہ پر’’قرارداد لاہور‘‘ پیش کرنے کیلئے جلسہ گاہ میں سٹیج پر موجود تھے تو اس وقت نوابزادہ نصراللہ خاں بھی ٹکٹ لیکر اندر داخل ہوئے کیونکہ وہاں ٹکٹ کے بغیر شمولیت نہیں ہوسکتی تھی تو جناب حمید نظامی نے انہیںدیکھ کر بلایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔
جب حمید نظامی نے’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ کی بنیاد رکھی تو نوابزادہ نصر اللہ خاں اس کے پہلے ’’قاری ‘‘ تھے۔جسے انہوں نے’’مستقل قاری‘‘ ہونے کی حیثیت کو ہمیشہ ہی برقرار رکھا۔ بلکہ جب کبھی ان کو ’’نوائے وقت‘‘ نہ ملتا تو وہ نوکر بھیج کر دوسرے شہروں سے منگوا لیا کرتے تھے۔ اس وقت’’ روزنامہ نوائے وقت‘‘ پہلا قومی اخبارتھا کہ جو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کرتا۔ جس کی پاداش میں’’نوائے وقت‘‘ کے خلاف حکومتوں کی طرف سے اشتہارات کی بندش اور دوسری انتقامیاں کارروائیاں کی جاتیں تو حکومت کے خلاف ان زیادتیوں پر آواز بلند کرنے میں نوابزادہ نصر اللہ خاںپیش پیش رہتے۔
جناب حمید نظامی کی وفات کے بعد جناب مجید نظامی نے قلمی جہاد کے اس تسلسل کر برقرار رکھا اور محترمہ فاطمہ جناح کو ’’مادر ملت‘‘ کا خطاب دیا۔نوابزادہ نصر اللہ خاں نے ان کی تائید کرتے ہوئے اپنے جلسوں میں اس خطاب کو دوام دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔’’جناب مجید نظامی‘‘ کو نوابزادہ نصر اللہ خاں کی وفات کی خبر اُس وقت ملی جب’’ روزنامہ نوائے وقت‘‘ نہ صرف شائع ہو چکا تھا بلکہ اس کے کچھ بنڈل تقسیم بھی ہو چکے تھے۔ چنانچہ ’’ مجید نظامی‘‘ نے نہ صرف وہ بنڈل واپس منگوا لیے بلکہ ’’اخبار‘‘ کو ہنگامی بنیاد پر از سرِ نو شائع کرایا اوراس میں صفحہ اوّل اور صفحہ آخر کو صرف’’نوابزادہ نصر اللہ خاں‘‘ کی خبروں کیلئے مخصوص کر دیا۔دنیائے صحافت کی تاریخ میں یہ منفرد اور پہلا اس طرح کا واقعہ ہے کہ کسی قومی اخبار کو چھپنے اور تقسیم ہونے کے بعد واپس منگوا کر ازسرِِ نو چھاپا گیا ہو۔’’ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل‘‘ میں ’’نوابزادہ نصر اللہ خاں‘‘ کی یاد میںایک ’’ تعزیتی‘‘ تقریب میں ’’جناب مجید نظامی‘‘ اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ ’’ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل‘‘ سٹیج پر اکٹھے بیٹھے تھے تو ’’حمید گل‘‘ نے انکشاف کیا کہ وہ دوسرے تین جنرلوں کے ہمراہ نوابزادہ نصر اللہ خاں کی رہائشگاہ پر گئے اور انہیں بطور’’ صدرِ پاکستان‘‘ کے عہدے کی پیشکش کی تو نوابزادہ نے یہ کہہ کر انہیں ٹھکرا دیا کہ وہ عوام کے فیصلوں کے پابند ہیں فوجی جنرلوں کے نہیں۔ اس پر حمید گل نے نوابزادہ کے متعلق کہا ’’ دی بیسٹ پولیٹیشن ان دی سب کونٹیننٹ‘‘ تو مجید نظامی نے کہا کہ اس فقرہ کو یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ’’ وَن آف دی بیسٹ مین اِن دی ورلڈ‘‘ یعنی دنیا بھرمیں ایک بہترین انسان۔