لادی گینگ کے خلاف پنجاب پولیس کی بہترین حکمت عملی
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے پنجاب بھر میں عرصہ دراز سے بگڑی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف آئی جیز پنجاب اور ڈی آئی جیز کو تبدیل کیا گیا۔ جنوبی پنجاب میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا جس میں ڈیرہ غازی خان ریجن کے چند ایک اضلاع جن میں راجن پور ،مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں ڈاکوں سر زور ہوتے جا رہے تھے ۔وزیراعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ جاکھرانی گینگ اور اس کے علاوہ چند نئے گینگ، جن کیخلاف پہلے کبھی کسی تھانہ میں ایف آئی آر تک درج نہ تھی ،کو ٹریس کرنا ناممکن تھا جس پر یہ ٹاسک آئی جی پنجاب انعام غنی کو دیا گیا تو آئی جی پنجاب انعام غنی نے ٹاسک کو قبول کرتے ہوئے ڈیرہ غازی خان میں ڈی پی او عمر سعید ملک اور ریجنل پولیس آفیسر رانا محمد فیصل کو سونپ دیا، جو آئی جی پنجاب کے ویژن کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے دن رات کوشاں رہے۔ ان کی تعیناتی کے دوران کئی چھوٹے گینگ کا قلم قلع کیا گیا وہ گینگ جن کو ٹریس کرنا پولیس کیلئے ناممکن تھا مگر گڈ گورننس کی وجہ سے سب گینگسٹر کو پکڑ کر ان کے انجام تک پہنچایا۔ ڈیرہ غازی خان پولیس کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس میں مشرق میں دریائی علاقہ اور اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ تھا جہاں صرف اور صرف جرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے بارڈر ملٹری پولیس ہی کا کام تھا ۔جب لادی گینگ نے سابقہ دور میں پنجاب پولیس اور باڈر ملٹری پولیس کیلئے مشکلات کھڑی کررکھی تھیں۔ محمد لادی کے مرنے کے بعد اس کے قریبی ساتھی خدا بخش عرف خدی چکرانی، جو پنجاب پولیس اور باڈر ملٹری پولیس کیلئے دردِ سر بنا ہوا تھا ۔ انہوں نے چند ماہ قبل ایک شہری کے جسم کے اعضاء کاٹ کر سوشل میڈیا پر تشہیر کی جو پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے لگے۔جس سے ملک بھر میں ان جرائم پیشہ افراد کیخلاف نفرت پیدا ہوگئی جس پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لیہ کے جلسے میں خطاب کے دوران اس گینگ کے خلاف سخت کارروائی کا کہا جس پر ریجنل پولیس آفیسر رانا محمد فیصل اور ڈی پی او عمر سعید ملک رینجر بارڈر ملٹری پولیس نے اس چلینج کو قبول کرتے ہوئے ایک بہترین پلاننگ کے تحت آپریشن کیا۔ اس موقع پر سابق پی اے حمزہ سالک کی خدمات کو بھی سراہے جانا ضروری ہوگا ان کی فورس بارڈر ملٹری پولیس اور پنجاب پولیس نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھر پور کارروائی کرتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کو پسپا کرنے پر مجبور کیا اور وہ اپنی کمین گاہوں کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے مگر پنجاب پولیس نے اپنے نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہار نہ مانی اور اپنی جدوجہد میں لگی رہی آخر کار ان کو کئی بڑی کامیابیاں بھی ملیں۔ پولیس کی بر وقت کارروائی سے لادی گینگ کا انتہائی اہم رکن نور محمد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔ پولیس تھانہ کوٹ مبارک معمول کے مطابق گشت کررہی تھی کہ رات کی تاریکی میں بستی تگیانی کے قریب پہلے سے لادی گینگ کے چھپے ہوئے ممبران نے پولیس کوآتے دیکھ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی پولیس نے حفاظت خود اختیاری کے تحت جوابی فائرنگ کی جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو اس دروان علاقہ میں سرچ اپریشن کیا گیا جس پر لادی گینگ کا اہم رکن نور محمد ولد محمد صدیق قوم کھر سکنہ اندر پہاڑ اپنے ہی ساتھیوں کی کراس فائرنگ سے ہلاک ہو چکا تھا ۔ ملزم نور محمد ایک ریکارڈ یافتہ ملزم تھا جس پر پہلے ہی اقدام قتل اور ڈکیتی جیسے سنگین نوعیت کے 8 فوجداری مقدمات درج ہیں۔ ملزم نور محمد 2 پولیس اہلکار محمد رفیق اور محمد یاسر پر بھی فائرنگ کر کے ان کو زخمی کر چکا ہے اور ایف ائی آر کا نامزد ملزم تھا۔ آر پی او اور ڈی پی او کی ہدایت پر ڈی ایس پی صدر ناصر علی ثاقب معہ پولیس تھانہ کوٹ مبارک سمیت دیگر نفری نے بھاگنے والے لادی گینگ کے اہم رکن نے ہتھیار ڈال کر خود کو سرنڈر کیا اور ایک آدھ تو دوران پولیس مقابلے میں بھی مارے گئے ۔اس آپریشن کے دوران سیاسی جماعت کے لوگوں پر طرح طرح کی باتیں کی گئی کہ فلاں سردار کا ہاتھ ہے، فلاں سردار نے بندہ پیش کیا۔ اگر کوئی گہنگار راہ راست پر آئے جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا، کوئی بھی سردار یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے علاقہ میں کوئی جرم ہو۔ باقی جرائم پیشہ افراد بھی کسی نہ کسی طریقے سے خود کو سرنڈر کرکے اپنے معاملات کیلئے کورٹ سے رجوع کر لیں تاکہ علاقہ کے اندر امن کی فضا پیدا ہوسکے اس آپریشن میں ڈی ایس پی عمران رشید کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔دیکھا جائے تو تمام تر پولیس ملازمین کی یہ محنت کا صلہ ہے۔ ڈی ایس پی صدر سرکل مہر ناصر علی ثاقب سیال اور ایس ایچ او جعفر حبیب اور اس کی تھانہ میں موجود ٹیم کی محنتوں کا ثمر ہے کہ آج جرائم پیشہ افراد کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ آر پی او اور ڈی پی او کو اب بھی اس ٹارگٹ کو آسان نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ جرائم پیشہ افراد پھر بھی کہی نہ کہی گھات لگا کر واردات کر جاتے ہیں۔