سر راہے
آزادکشمیر الیکشن میں قائم دلچسپ پولنگ سٹیشنوں کی داستان
جی ہاں یہ طلسم ہوشربا کی طرح تخیلاتی کہانی لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈیرہ مراد جمال، سیہون شریف، لاڑکانہ اور تربت میں صرف ایک ایک ووٹ درج ہے۔ سکھر اور بارکھان میں دو دو ووٹ درج ہیں۔ اب ان ایک یا دو ووٹروں کے حق رائے دہی کیلئے ان تمام شہروں میں پولنگ سٹیشن بنائے گئے۔ جن میں 8 عدد پولنگ کا سرکاری عملہ اور دو درجن پولیس اہلکار بھی حفاظت کیلئے شامل ہوتے ہیں۔ ایک دن پہلے سامان پہنچایا جاتا ہے۔ اس سارے عمل پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ حساب کتاب والے بتاتے ہیں کہ فی ووٹ ایک لاکھ میں پڑتا ہے مگر اس کے باوجود دیکھ لیں ان سات اورایسے ہی کم ووٹروں والے کئی حلقوں میں ایک ووٹر بھی ووٹ ڈالنے میں آیا اور شام کو پولنگ سٹیشن کا عملہ اور پولیس اہلکار اپنا اپنا سامان سمیٹ کر جمائیاں لیتے ہوتے گھر سدھار گئے۔ بھلا ایک، دو یا چار ووٹوں کیلئے ایسے سرکس سجانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا انہیں ڈاک سے یا قریبی بڑے حلقے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے کر یہ ضائع ہونے والے لاکھوں روپے بچائے نہیں جاسکتے مگر اس پر غور کرنے کی کسے فرصت ہے۔ یہ تو ایک مذاق لگتا ہے۔ اس لئے پولنگ سٹیشن کم از کم 50 یا 100 ووٹروں کیلئے بنائے جائیں اور یہ دوچارووٹروں کوبڑے پولنگ سٹیشن میں شامل کیا جائے۔ امیدوار خود انہیں لانے لے جانے کا خرچہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت اس کی ٹینشن نہ لے۔ خود ان چند ووٹروں کی الیکشن میں دلچسپی یہ رہی کہ وہ ووٹ ڈالنے تک نہیں آتے اسی طرح کسی امیدوار نے بھی انہیں لے جاکر ووٹ ڈالنے کا تکلف گوارہ نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭
سپین کی پارلیمنٹ میں چوہا گھس آیا، ارکان اسمبلی کی دوڑیں لگ گئیں
جناب من یہ چوہا چیزہی ایسی ہے جس کے سامنے بڑے بڑے تھرتھر کانپتے ہیں۔ وہ ظالم ہستی جیسے ’’بے غم‘‘ کہتے ہیں وہ اپنے ہلاکو خان قسم کے شوہر سے یاکسی تلوار بندوق سے نہیں ڈرتی مگر ایک عدد چوہا اگر کہیں سے نمودار ہوجائے تو اس کی بدحواسیاں اور چیخ و پکار دیکھنے والی ہوتی ہے۔ لگتا ہے چوہا نہیں کوئی خطرناک زہریلا ناگ کہیں سے پھن پھیلائے آن گھسا ہے۔ موصوفہ خوف سے مری جارہی ہوتی ہیں۔ اب گرچہ یورپ والوں کو جانوروں سے بہت پیار ہوتا ہے چوہے سے لے کر اژدھا تک کو یہ گھروں میں پالتے ہیں ساتھ سلاتے ہیں۔ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر انہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو یا شوہروں کو چومیں یا نہ چومیں مگر ان جانوروں کو چومتے پیار کرتے پھرتے ہیں۔ اس کے باوجود دیکھ لیں۔ یورپ میں بھی چوہا میاں ابھی تک دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اب خواہ بیڈ روم ہو ، ڈائننگ ہال ہو یا اسمبلی ہال اگر کہیں کوئی بھولا بھٹکا چوہا نمودار ہوجائے تو گھر والوں سے لے کر ارکان اسمبلی تک میں تھرتھلی مچ جاتی ہے۔ سپین میں بھی یہی ہوا۔ جونہی چوہا اسمبلی ہال میں داخل ہوا ارکان اسمبلی اجلاس بھول گئے کوئی نشست پر چڑھ گیا کوئی باہر کی طرف دوڑ پڑا کوئی چیخ و پکار کرکے چوہے کو بھگانے میں مصروف ہوگیا۔ یہ ہے ایک معمولی سے چوہے کی طاقت۔ ہمارے ہاں تو بلی کی جسامت والے چوہے بھی پائے جاتے ہیں جو پبلک مقامات پر اور گھروں میں بے دھڑک اچھلتے کودتے اپنی نسل کی نہایت اطمینان سے افزائش کرتے پھرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پر تو زہر بھی اثر نہیں کرتا اور یوں گھر ہو یا دفتر یا دکان اپنی جگہ مٹرگشت کرتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عید کی تعطیلات میں بدترین ٹریفک جام تفریحی مقامات میں ہزاروں سیاح پھنس گئے
گرچہ پاکستان میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عید یا دیگر تعطیلات کے دنوں میں سیاحتی مقامات کا رخ کرے مگر ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ والی بات ہے۔ اکثر یت کی جیب اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ پاکستان کے پرفضا حسین مقامات کی دید سے محروم رہتے ہیں جو چند فیصد لوگ مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ تو گرمی اور سردی میں چھٹیاں گزارنے مری، سوات، کاغان، سکردو وغیرہ جاتے ہیں یا کچھ لوگ تھوڑی بہت بچت کرکے کبھی کبھار حد سے حد مری یا سوات کی سیر کرلیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا وژن ہے کہ وہ پاکستان کو سیاحوں کیلئے جنت بنا دیگی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور پاکستان میں تو چاروں صوبوں بشمول آزادکشمیر گلگت، بلتستان، سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں مگر اس کے باوجود سچ پوچھیں تو ان سیاحتی مقامات پر جانے کیلئے وہاں رکنے کیلئے کھانے پینے کیلئے کوئی خاص سہولت دستیاب نہیں مالدار لوگ تو مہنگے کرائے اور اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ متوسط طبقے کیلئے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہی متوسط طبقہ سب سے زیادہ کاغان، ناران، مری، سوات کا رخ کرتا ہے۔ عید کی موجودہ چھٹیوں میں بھی یہی ہوا تو ان تفریحی سیاحتی مقامات پر ہزاروں گاڑیاں بدترین ٹریفک جام میں پھنس گئیں اور سیاحوں نے جن میں فیملی والے بھی شامل تھے رات گاڑیوں میں بسر کی۔ کس طرح بسر کی وہی جانتے ہیں۔ یہ تفریح بھی ان کیلئے کوفت بن گئی تاحال کئی سیاحتی مقامات پر ٹریفک جام ہے۔ اگر حکومت واقعی سیاحت کو ترقی دینا چاہتی ہے تو پھر اسے وسیع کشادہ سڑکیں، سستے ہوٹلوں اور ارزاں نرخوں پر خوراک کی فراہمی ان سیاحتی مقامات پریقینی بنانا ہوگی ورنہ ایک دفعہ جوخجل خوار ہو وہ دوبارہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے ایسی سیروتفریح کے نام سے ۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں گھوڑا دولہے کو لے کر بھاگ گیا
لگتا ہے یہ کوئی نہایت زیرک قسم کا گھوڑا ہوگا جس کا کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق ہوگا صرف یہی نہیں یہ تمام گھریلو اور خاندانی مسائل سے بھی لگتا ہے نہایت آگہی رکھتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ گھوڑے پر چڑھ کر سہرا باندھ کر ڈھول باجے کے ساتھ ناچتے گاتے رشتہ داروں کے جلو س میں سسرال جانے والا اپنے مستقبل کے بارے میں بے خبر ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ جانور جو انسانوں سے بہت انسیت رکھتا ہے، میدان جنگ میں اپنے سوار کیلئے اپنی جان تک قربان کردیتا ہے۔ اس نے اپنے سوار دولہا کو شادی کے چنگل میں پھنسنے سے بچانے کیلئے ایک موقع اور دیا سوچنے کا اور دولہے کولے کر شادی کے ہنگاموں سے دور بھگا لے گیا مگر ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ باراتیوں نے بھاگ دوڑ کرکے دولہا اور گھوڑے کو روک لیا اور واپس شادی گھر لے آئے یوں دولہے کو یہ اسپ وفادار جس کام سے بچانا چاہتا تھا اس میں ناکام رہا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں روزانہ ہزاروں افراد گھروں میں آس پڑوس میں ازدواجی زندگی کی نت نئی لڑائیاں، کہانیاں، محبتیں دیکھتے بھی ہیں مگر کون سبق حاصل کرتا ہے۔ سب اس قلعے میں داخلے ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس میں داخل ہونے والے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ مرحلہ شوق سب کو طے کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس کے بعد میاں بیوی اور بچے مل کر اپنا ایک نیا مورچہ سنبھالتے ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں اپنے دفاع کی جنگ لڑتا ہے کہیں ہنستے مسکراتے ہوئے اور کہیں روتے دھوتے ہوئے۔
٭٭٭٭٭